Today ePaper
Rahbar e Kisan International

جو میرے پاس تھا، وہی آپ کے لیے لایا ہوں!

Articles , Snippets , / Friday, July 25th, 2025

rki.news

تحریر: ثمینہ علی بیگ

انسان کی شخصیت کا اصل جوہر اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ زبان سے ادا کیے گئے الفاظ تو لمحاتی ہوتے ہیں، مگر کردار اور رویہ انسان کے باطن کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ اکثر لوگ خود کو بہت کچھ ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان کا اصل چہرہ تب سامنے آتا ہے جب وہ کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ وہاں وہی دے پاتے ہیں جو ان کے اندر ہوتا ہے۔ محبت، برداشت، شفقت یا پھر نفرت، بغض اور انتقام—جو اندر ہے، وہی باہر آتا ہے۔

ایسا ہی ایک سبق آموز واقعہ ایک سادہ سے شخص کے ساتھ پیش آیا۔ اس شخص نے ایک خوبصورت علاقہ میں نیا مکان خریدا۔ مکان کے ساتھ ایک پھلوں سے بھرا سرسبز باغ بھی تھا، جو اس کے شوق کا مظہر تھا۔ وہ اپنی زندگی کو پرامن اور خوشگوار بنانے کے لیے پرجوش تھا۔ لیکن اس کے پڑوس میں ایک پرانا مکان تھا، جس میں کئی افراد ایک ساتھ رہتے تھے۔ وہ کچھ بدمزاج اور منفی سوچ کے حامل لوگ تھے۔

چند دن گزرنے کے بعد، ایک صبح اس نے دیکھا کہ اس کے گھر کے دروازے پر ایک بالٹی کوڑا پھینکا گیا ہے۔ پہلے تو وہ حیران ہوا، پھر اسے شدید غصہ آیا۔ مگر وہ خود پر قابو رکھ کر واپس اندر چلا گیا۔ کسی قسم کی بدکلامی یا شکایت کے بجائے، اس نے ایک مختلف انداز اپنانے کا فیصلہ کیا۔

اسی شام اس نے اپنے باغ کے تازہ اور رسیلے پھل چُنے، ایک صاف ستھری بالٹی میں بھرے اور سیدھا پڑوسی کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازے کی گھنٹی بجائی تو اندر موجود افراد یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ شکایت یا جھگڑا کرنے آیا ہے۔ چنانچہ وہ پہلے ہی سے غصے میں، دفاعی انداز اختیار کیے ہوئے دروازے پر آئے۔ مگر جب انہوں نے دروازہ کھولا، تو ان کے سامنے مسکراتا ہوا وہ نیا پڑوسی کھڑا تھا، جس کے ہاتھ میں پھلوں سے بھری بالٹی تھی۔ اس نے نہایت نرمی سے کہا:

“جو میرے پاس تھا، وہی آپ کے لیے لایا ہوں!”

یہ ایک جملہ اُن کے لیے ایک حیرت انگیز اور غیر متوقع جواب تھا۔ ان کی سوچوں اور رویے کو جھنجھوڑ دینے والا۔ وہ شرمندہ بھی ہوئے، خاموش بھی ہو گئے، اور ان کے اندر تبدیلی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

یہ سادہ سا واقعہ زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان وہی دوسروں کو دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔ اگر دل میں بغض، نفرت اور غصہ ہے تو وہی اس کے الفاظ اور رویے میں ظاہر ہوتا ہے۔ اگر دل محبت، برداشت اور درگزر سے لبریز ہے، تو یہی خوبیاں دوسروں کو منتقل ہوتی ہیں۔

ہم روزمرہ زندگی میں مختلف رویوں سے گزرتے ہیں۔ ہمیں تلخ کلامی، دھوکہ، الزام تراشی، حسد، اور بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان سب کے جواب میں ہم کیا کرتے ہیں؟ اگر ہم بھی اسی طرح منفی ردعمل دیں، تو ہم میں اور ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اصل انسان وہی ہے جو منفی رویے کا جواب مثبت انداز سے دے۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہو چکا ہے، لوگ خودغرض ہو چکے ہیں، اخلاقیات ختم ہو رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں؟ ہم کیا بانٹ رہے ہیں؟ ہم اپنے اندر کون سا جذبہ رکھتے ہیں؟ کیونکہ ہم جو کچھ بانٹتے ہیں، وہی لوٹ کر آتا ہے۔

یہی حکمت قرآن پاک میں بھی واضح طور پر بیان ہوئی ہے: “ھل جزاء الاحسان الّا الاحسان”
(کیا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور ہو سکتا ہے؟)

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شخصیت کو اس نہج پر لائیں جہاں ہمارے عمل دوسروں کے لیے خوشی، راحت، امید اور محبت کا ذریعہ بنیں۔ اگر ہم نفرت کے بدلے محبت دیں گے، تو شاید ہمیں کچھ دیر کے لیے کمزور سمجھا جائے، لیکن حقیقت میں ہم ہی اصل فاتح ہوں گے۔

ہمارے نبی ﷺ نے ہمیشہ دوسروں کو وہی دیا جو ان کے پاس بہترین تھا۔ طائف کے سنگباری کرنے والوں کو دعائیں دیں، مکہ کے ظالموں کو فتح کے بعد معاف کر دیا، اور بدخواہوں کے لیے بھی بھلائی کی دعا فرمائی۔ ان کا یہی اعلیٰ ظرف آج بھی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

آج اگر ہم اپنی ذات کو دیکھیں تو یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ: “ہمارے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کیا ہے؟”

اگر ہم صرف تنقید، غصہ، حسد اور منفی خیالات سے بھرے ہوں تو ہم دوسروں کو کچھ اچھا نہیں دے سکیں گے۔ لیکن اگر ہم علم، شفقت، محبت، اور برداشت اپنے اندر پیدا کریں تو ہمارے اردگرد کا ماحول بھی بدل سکتا ہے۔

ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ دوسروں کے رویے ہماری سوچ سے زیادہ ہمارے ردعمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو سنوارنا ہوگا تاکہ ہم ایک بہتر معاشرے کے معمار بن سکیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International