تازہ ترین / Latest
  Wednesday, October 23rd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

بھائی ایسے ہوتے ہیں

Articles , Snippets , / Wednesday, March 20th, 2024

آج صبح جب میں اپنے کلینک میں داخل ہوی تو جس پہلی مریضہ کو میں نے چیک. کیا وہ ایک ادھیڑ عمر، فربہ اندام، درمیانے قد اور دھیمے مزاج کی صابر سی عورت تھی اس کے ساتھ اس کی بیس سالہ بیٹی بھی تھی. اسے چھاتی پہ ایک پھوڑا تھا جسے میڈیکل کی زبان میں Breast abscess کہتے ہیں چونکہ آج کے دور میں کینسر نامی بیماری پوری دنیا کے انسانوں کے لیے وبال جان بن چکی ہے تو وہ خاتون بھی اسی شک کو رفع دفع کرنے کے لیے تشریف لای تھیں. میں نے شوگر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بھولپن سے جواب دیا شوگر نہیں ہے آخری دفعہ شوگر کب چیک کروای تھی ایک سال پہلے. مریضہ کی شوگر چیک کروای گءی تو وہ تقریباً 400 تھی. مطلب بہت زیادہ جس کی وجہ سے انہیں breast abscess جیسے مسءلے سے دوچار ہونا پڑا. مریضہ کو شوگر کی دوا اور پرہیز بتایا اور پانچ روز بعد آنے کا کہا مریضہ بولی موت تو برحق ہے ہر ذی نفس نے ایک نہ ایک دن موت کاذایقہ چکھنا ہی ہے یہ کہہ کے مریضہ بھبھک بھبھک کے رونے لگی میں نے پوچھا خیریت ہے بولی زندگی اتنی غیر یقینی ہے کہ ہم انسان اس کی ناپایداری کو سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں پھر گویا ہویں کہ چند روز قبل میرے شوہر کو فالج کا اٹیک ہوا. میرے بہت سے دیور ہیں جن کے مالی حالات ہم سے بہت بہتر ہیں. ایک دیور میرا نیو جرسی میں انجینئر ہے اور اللہ کا بڑا نیک بندہ ہے اس نے اپنے بھای یعنی میرے شوہر کے علاج معالجے کے لیے ایک لاکھ روپے بھیجے اور اگلے روز سحری کے وقت اس کا حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا . اور میرے منہ سے بے ساختہ نکلا سبحان اللہ. اللہ کا کتنا نیک بندہ تھا. جو اتنا نیک کام کر کے اپنے بیمار بھای کی مدد کر کے جنت میں گھر بنا گیا اور اللہ کو پسندیدہ ترین فعل ہے اپنے بھای سے سلوک حسنہ. اور کتنے خوش نصیب ہیں وہ خاندان جہاں آج بھی اخلاقی اقدار کی حکومت ہے جہاں بہن بھای اور والدین پیار محبت کے جھولے جھولتے ہیں جہاں گھر آنگن اور چولہے سانجھے ہیں جہاں خوشیاں، غم اور زندگی کے تمام جھمیلے اور میلے سانجھے ہیں. جہاں تیری میری کے رونے نہیں جہاں ہابیل قابیل جیسا کشت و خون نہیں جہاں زمین جائیداد کے بٹوارے نہیں جہاں سانجھ ونڈ کے بکھیڑے نہیں جہاں ایک فرد کا روگ تمام خاندان کا روگ بن جاتا ہے اور جہاں ایک فرد کی خوشی تمام افراد کی ہنسی کا سماں پیش کرتی ہے. لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم اس نفسانفسی اور گراوٹ کے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہر شخص نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی قبر الگ ہی بنا رکھی ہے پہلے گھر بھلے چھوٹے ہوتے تھے سہولیات کا بھلے لاکھ فقدان ہوتا تھا مگر لوگوں کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے تھے.
یہ ان زمانوں کی بات ہے جب تمام لوگ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے اکٹھے ہی ریڈیو سنتے تھے بچوں کی پڑھائی لکھائی بھی اسی دالان میں ہوتی تھی ماں کی سلای مشین بھی اسی ماحول میں کءی سے کءی شاہکار تخلیق کر جاتی تھی. ماں ہم بہنوں کے ماڈرن سے ماڈرن ڈریسز تو بناتی ہی تھی اپنے میکے اور سسرالی بچوں کے کپڑے بھی ڈھیر محنت، محبت اور خلوص سے بنا تی تھی، سحری اور افطاری یہاں ہی ہوتی تھی نمو خالہ پورے ٹبر کی سحری اتنی محبت سے تیار کرتی تھیں کہ کبھی کبھی مجھے شک پڑتا کہ وہ اس خوبصورت ذمہ داری کو نباہنے کے لیے عشاء اور تراویح کے بعد سوتی بھی نہ تھیں. اور ان کے دیسی گھی کے بنے ہوے بلدار، لذیذ اور خستہ پراٹھے چاے کے ساتھ منہ میں شکر کی مانند گھلتے چلے جاتے تھے. اور ساتھ گھر کی جمای گءی دہی، لسی سحری کی برکات کو چار چاند اس لیے بھی لگ جاتے کہ بڑوں کے ساتھ ساتھ معصوم بچے بھی سحری میں چڑی روزہ رکھ کے رمضان کے ثواب میں اپنا معصوم حصہ ڈالنے کی حتی المقدور کوشش کرتے اور پھر شام ہوتے ہی گھر کے کھلے صحن میں ایک لاین میں چارپائیوں پہ سفید لٹھے کی چادریں بچھ جاتیں افطاری میں روح افزا، ستو والا شربت، ملک شیک اور کھجوریں ہوتیں کھانے کا اہتمام مغرب کی نماز کے بعد ہوتا اور بھر پور ہوتا اور یہ بھی سچ ہے کہ پکوڑے سموسے، دہی بڑے، چنا چاٹ، فروٹ چاٹ اور مرغن صحت بخش غذایں کھا کھا کے ہم سب بغیر کسی مغالطے کے اپنا وزن رمضان المبارک کے مہینے میں کءی کءی کلو بڑھا لیتے تھے ان زمانوں میں علیحدہ علیحدہ کمروں میں سونے کا رواج نہ تھا اور پرایویسی نامی عفریت کا فیشن ابھی کہیں بھی ان نہ ہوا تھا. پیسہ مای باپ نہ تھا انسانی ر شتے قابل احترام اور قابل محبت تھے. بچوں سے پیار اور بڑوں کے احترام کا زمانہ تھا.
ہاے ہاے کیا ہی بھلا زمانہ تھا
نہ دولت کی خماری تھی
نہ پیسے سے یاری تھی
نہ تیری میری کے جھگڑے
نہ کوئی اونچا نیچا تھا
نہ گردن میں سریے پونم
نہ غم کی پہرہ داری تھے
چند سکے لے کے مٹھی میں
خوابوں کی روش پیاری تھی
اس دور میں سب برابر تھے
نہ چوہدری نہ کوی ہاری تھا
شاہوں کے دل بھی مومن تھے
کوی نہ تب زرداری تھا
دیوے کی لاٹ کا چانن تھا
چہروں پہ تھی مسکان بہت
لوگوں کو سب پہ مان بہت
تو وہ زمانہ اور اس پیارے زمانے کے لوگ اب ہمیں خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے
جب کوی مہمان کسی گھر میں آتا تھا تو لوگ خوش ہوتے کہ اللہ کی رحمت گھر میں آ گءی ہے تمام اہل خانہ اپنے ضروری کام چھوڑ کے مہمان کی مہمان داری میں جت جاتے تھے اس کے کھانے پینے، سونے اور دل بہلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے تھے کیا بھلا زمانہ تھا پھر تقریباً پندرہ بیس سال میں زمانے کی چال، طیور، رنگ ڈھنگ ایسے بدلے کہ اب لوگ باقاعدہ طور پہ مہمان کو زحمت سمجھنا شروع ہو گءے ہیں ایک ہی گھر کے لوگ اپنے اپنے کمروں میں محبوس ہو چکے ہیں پرایویسی کا عفریت بری طرح سے لوگوں پہ اپناتسلط قائم کر چکا ہے رہی سہی کسر موبائل نامی وبال نے پوری کر دی ہے.
پرایویسی
بڑا سا محل
محل کے سینکڑوں کمرے
سیڑھیاں، بالکونیاں اور دالان
محل میں رہنے والے کل پانچ نفوس
جو اللہ کی طرف سے خون کے بندھن میں بندھے ہوے ہیں
اور ان پانچ نفوس کی خدمت کو سینکڑوں ملازمین کی ایک فوج
مگر کیا عذاب الٰہی ہے
ہر نفس ایک دوسرے سے انتہا کی دوری کے باوجود بھی
Privacy کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے
یونہی ہارا پھرتا ہے.
مساوات اور بھائی چارہ تو معاشرے میں امن قائم کرنے کا سنہری اصول ہے ہی. اور یہ تیر بہدف نسخہ چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امت مسلمہ کو بتا دیا تھا اور جب مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ہوی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین کی اس مشکل گھڑی کو مواخات قائم کر کے حل کیا یعنی ہر مہاجر کو ایک انصاری کا بھای بنا دیا اور مدینے کے انصار نے بھای چارے اور پر خلوص بھائی چارے کی وہ مثال قائم کی کہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کو بھای چارے، محبت اور خلوص کے معنی سکھا دیے. آءیے اس دم توڑتے بھائی چارے کی فضا میں دوبارہ سے بھای چارے، خلوص و وفا اور چاہتوں کے دءیے روشن کریں
بھای چارہ اور چاہت
چھوڑ دیں تیری میری کے قصے
چھوڑ دیں آپا دھاپی کی باتیں
حسد اور بے بسی سے کیا لینا
سب سے کر لیں ایثار کی باتیں
ساری دنیا کے سارے لوگوں دے
آءیے کر لیں پیار کی باتیں
دنیا کی بے بسی سے محظوظ ہونا چھوڑیے لوگوں کو اپنا مان کے ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا سیکھیے دنیا پیار اور امن کا گہوارہ بن جاے گی
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International