rki.news
جب جلا میں باندھ کر رخت _ سفر
مضطرب تھے لاگ منظر دیکھ کر
ماں کی ممتا لے رہی تھی کروٹیں
باپ کی پیشانی پر تھیں سلوٹیں
بھائی بہنیں دوست سب ہی تھے اداس
گویا سارے مضمحل تھے آس پاس
گاؤں کے کچھ بوڑھے بچے نوجواں
دل شکستہ دل گرفتہ تھے وہاں
کامیابی کامرانی کے لئے
کر رہے سب دعا میرے لئے
کر رہی تھی گفتگو سر گوشیاں
آنکھیں نم خاموش تھیں سب کی زباں
لگ رہا تھا وقت جیسے رک گیا
سامنے حالات کے سر جھک گیا
ہاں مگر بچوں کو خوشیاں تھین نصیب
ان کی فرمائش بھی تھی کیا عجیب
گیند بلاّ چاکلٹ گڑیا کھجور
تھی یہی بچوں کی فرمائش حضور
ایک چہرہ اور پردہ پوش تھا
کچھ زیادہ ہی وہاں خاموش تھا
کپکپاتے ہونٹوں پر شکوہ بھی تھا
غم زدہ آزردہ افسردہ بھی تھا
سونے چاندی ستم نہ تھا اس کو لگاؤ
تھا محبت کی طرف اس کا جھکاؤ
پیا ر کا ہی چاہتا تحفہ تھا وہ
پیار کو ہی جانتا تحفہ تھا وہ
اجنبی چہرہ نہیں تھا وہ کوئی
میری اپنی چاندنی تھی چاندنی
بیش قیمت بے بہا تحفہ ہے وہ
گویا میرے جسم کا حصہ ہے وہ
وو ادھوری لگتی ہے میرے بغیر
میں ادھورا لگتا ہوں اس کے بغیر
وقت _ رخصت شاد کب منصور تھا
وقت کے ہاتھوں بہت مجبور تھا
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply