rki.news
یہ بھی اُدھر گیا وہ منافق جدھر گیا
زندہ تو ہے ؟ ضمیر مگر اس کا مر گیا
بے خوف سر اٹھائے کھڑا تھا زمین پر
وہ پیڑ بھی خِزاں کے تھپیڑوں سے ڈر گیا
پتجھڑ کی زد میں آگئے برگ و ثمر تمام
پھر دیکھتے ہی دیکھتے گُلشن بکھر گیا
پشتینی گھر کو بیچ کے بیٹا ہوا فرار
ماں ڈھونڈھتی ہے لاڈلہ میرا کدھر گیا
مہنگائیوں کے بوجھ سے دب کر غریب باپ
اس عمر میں ریال کمانے قطر گیا
حالات دل کسی کو بتائیں کہ چپ رہیں
کس کو پڑی ہے کون کہاں اور کدھر گیا
کس کشمکش میں عمر کزاری ہے کیا کہیں
عیش و طرب کہاں ہے غم دل کدھر گیا
اس کی اداس آنکھوں میں شکوے ہزار تھے
جب مدتوں کے بعد میں منصور گھر گیا
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply