rki.news
لہو لہان کرو گے جو گلستاں ہر روز
تمھارے ظُلم کی لکھوں گا داستاں ہر روز
جہاں پہ نغمۂ رسکھان گونجتا تھا کبھی
سُنائی دیتا ہے اب نالہ و فغاں ہر روز
درخت ایک لگاتے ہیں کاٹتے ہیں ہزار
اجاڑتے ہیں سروں سے وہ سائباں ہر روز
وہ آج تک کوئی استاد دے نہیں پایا
جو درس دیتی تھی بچپن میں میری ماں ہر روز
جو ہم نے ساتھ گزارے نشاط کے لمحے
خُوشی کے دن وہ میسّر ہیں اب کہاں ہر روز
نہ ہوگا پھوس کا چھپر اُنھیں نصیب کبھی
جو توڑتے ہیں تہی دست کے مکاں ہر روز
میں بوئے جانِ تمنا سے آشنا ہوں بہت
کہ خود کو پاتا ہوں میں اُن کے درمیاں ہر روز
تمھارے آنے کی ملتی تو ہے خبر ہر دن
مگر میں ڈھونڈوں تمھیں کس طرف کہاں ہر روز
مری نگاہیں اسے دیکھتیں ہیں حسرت سے
اِدھر سے جاتا ہے جب اس کا کارواں ہر روز
جب اُس کی يادیں ستاتیں ہیں تو یقیں جانو
“جگر پہ لگتے ہیں سو زخمِ بے نشاں ہر روز”
تو اُن پرندوں سے جدّ و جہد کے مطلب پوچھ
درخت پر جو بناتے ہیں آشیاں ہر روز
رهِ وفا میں ہیں دشواریاں بہت منصور
وہ خوش نصیب ہیں ہوتے ہیں شادماں ہر روز
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply