rki.news
تحریر احسن انصاری
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں دریاؤں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انہی دریاؤں کے بپھرنے سے بارہا ملک کو بدترین سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی ساخت، مون سون کی بارشیں، برف پگھلنے کے عمل اور ماحولیاتی تغیرات سیلابی آفات کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان قدرتی آفات سے نہ صرف قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ کھڑی فصلیں، مکانات، سڑکیں، پل اور مواصلاتی نظام بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں آنے والے بڑے سیلابوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مضبوط نظام کی اشد ضرورت ہے۔ اس تناظر میں پاک فوج کا کردار ہمیشہ نمایاں اور قابلِ تعریف رہا ہے، جب بھی ریاستی ادارے ناکافی یا تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو فوج ہی متاثرہ عوام کے لئے اولین سہارا بنتی ہے۔
پاکستان میں 2010 کا سیلاب تاریخ کا بدترین شمار ہوتا ہے جس نے دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا اور 20 لاکھ سے زیادہ مکانات تباہ ہوئے۔ صرف زرعی شعبے کو ہی اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے بعد 2014، 2020 اور 2022 میں آنے والے سیلابوں نے بھی بڑے پیمانے پر انسانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ 2022 کے سیلاب میں اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 1700 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ کھڑی فصلوں کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ برباد ہوا جبکہ مویشیوں کی لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ تباہ کاریاں متاثرہ آبادی کو بے گھر کرنے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کے پھیلاؤ، پینے کے صاف پانی کی کمی اور غذائی قلت کا بھی سبب بنتی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان رہے ہیں جہاں بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی کمزور تھا۔
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے قائم ہیں۔ یہ ادارے پیشگی وارننگ سسٹم، امدادی سرگرمیوں اور متاثرین کی بحالی میں کردار ادا کر رہے ہیں، مگر وسائل کی کمی، بروقت فیصلوں کی عدم موجودگی اور رابطہ کاری کے فقدان کے باعث ان کی کارکردگی محدود ہے۔ ایسے میں پاک فوج کا کردار فیصلہ کن اور نجات دہندہ ثابت ہوا ہے۔
سیلاب کے دوران پاک فوج کی امدادی سرگرمیاں کئی جہتوں پر محیط ہوتی ہیں۔ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو ہیلی کاپٹرز اور کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ متاثرین تک خوراک، ادویات اور خیمے پہنچائی ہیں۔ طبی سہولتوں کے لئے فیلڈ ہسپتال قائم کیے ہیں تاکہ زخموں کا علاج اور وبائی امراض پر قابو پایا جا سکے۔ فوجی انجینئرنگ یونٹس سڑکوں اور پلوں کی مرمت کر کے آمد و رفت بحال کا کام بھی جاری ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ آئے۔ پاک فوج بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک کی ٹیموں کے ساتھ بھی رابطہ میں ہے تاکہ مشترکہ حکمت عملی کے تحت ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سیلابی آفات صرف ایک خطے تک محدود نہیں رہتیں بلکہ شمال سے جنوب تک پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ پاک فوج نے ہر بار یہ ثابت کیا ہے کہ چاہے گلگت بلتستان کی بلند و بالا وادیوں میں راستے برف باری اور بارش کے باعث بند ہوں، خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہو، پنجاب کے میدانی علاقے دریاؤں کے بپھرنے سے زیرِ آب آ جائیں یا سندھ کے وسیع میدان پانی میں ڈوب جائیں، فوجی جوان ہر جگہ بروقت اور قابلِ عمل انداز میں پہنچتے ہیں۔
بلوچستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہوتی ہے کیونکہ یہاں نہ صرف بارشوں کی شدت زیادہ ہوتی ہے بلکہ زمینی ڈھانچہ بھی انتہائی کمزور ہے۔ 2022 کے سیلاب میں بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں سینکڑوں دیہات بہہ گئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ ایسے میں پاک فوج نے نہ صرف ریلیف کیمپ قائم کیے بلکہ خستہ حال سڑکوں اور پلوں کی مرمت بھی کی۔ فوجی ہیلی کاپٹرز نے دور دراز علاقوں میں پھنسے ہوئے خاندانوں کو نکالا اور میں طبی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ بلوچستان میں فوج کا کردار اس لئے زیادہ اہم ہے کہ یہاں سول ادارے محدود وسائل رکھتے ہیں اور فوج کے بغیر بڑے پیمانے پر ریلیف ممکن نہیں۔
قدرتی آفات کے وقت پاک فوج کی فوری اور منظم کارروائیوں نے عوام کے دلوں میں اس ادارے کے لئے اعتماد کو مزید بڑھایا ہے۔ فوج کے جوان متاثرین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ جب ایک سپاہی گھروں سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا یا انہیں محفوظ مقام تک لے پہنچایا ہے یہ عمل عوامی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ اگر فوری طور پر ڈیمز کی تعمیر، آبی گزرگاہوں کی صفائی، جنگلات کے فروغ اور شہری منصوبہ بندی پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں سیلابی آفات مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے قومی سطح پر ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ قدرتی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔
پاکستان میں سیلابی آفات ایک سنجیدہ اور بار بار سامنے آنے والا مسئلہ ہیں جو ملک کی معیشت، معاشرت اور بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اگرچہ حکومت اور سول ادارے اپنی بساط کے مطابق کام کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج ہی وہ قوت ہے جو مشکل وقت میں متاثرہ عوام کے لئے نجات دہندہ بن کر سامنے آتی ہے۔ چاہے گلگت بلتستان کے دشوار گزار پہاڑ ہوں، خیبرپختونخوا کے پہاڑی درے، پنجاب کے کھیت کھلیان، سندھ کے زیرِ آب میدان یا بلوچستان کے پسماندہ اور مشکل علاقے، فوج نے اپنی خدمات کو ہر جگہ مؤثر انداز میں ثابت کیا ہے۔ ریسکیو آپریشنز، امدادی سرگرمیوں اور بحالی کے عمل میں فوج کا کردار بلاشبہ قابلِ تحسین اور مثالی ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت، سول ادارے اور فوج مل کر ایک جامع حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ مستقبل میں آنے والے سیلابوں سے نہ صرف بہتر طور پر نمٹا جا سکے بلکہ عوام کے قیمتی جان و مال کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔
(Email. aahsan210@gmail.com
Leave a Reply