rki.news
تحریر شفیق ماجد
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا دارومدار براہِ راست پانی اور زراعت پر ہے۔ دریائے سندھ اس ملک کی شہ رگ ہے اور اس کا پانی نہ صرف ہماری زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ہماری معیشت کو سہارا بھی دیتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب یہ پانی قابو میں لانے کے بجائے بے قابو ہو کر سیلاب کی صورت میں آتا ہے تو یہ نعمت ہمارے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ ہر سال پنجاب اور سندھ کے کئی علاقے تباہ کن سیلاب کی زد میں آتے ہیں، کھیت کھلیان ڈوب جاتے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ملک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہم ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ کالا باغ ڈیم آج موجود ہوتا تو صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔ وہی پانی جو آج کھیتوں اور گھروں کو تباہ کر رہا ہے، ہمارے لیے زندگی اور خوشحالی کا ذریعہ بن جاتا۔ یہ پانی محفوظ کر کے نہ صرف خشک سالی کے دنوں میں استعمال کیا جا سکتا تھا بلکہ تھل کے ریگستانوں اور پنجاب و سندھ کی بنجر زمینوں کو سیراب کر کے زرعی انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا۔ لاکھوں ایکڑ زمین سرسبز ہو جاتی، کسان خوشحال ہو جاتا اور پاکستان خوراک میں خود کفیل بن سکتا تھا۔
کالا باغ ڈیم کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو تباہ کن سیلاب سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دریائے سندھ کے طوفانی ریلے جب قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو یہ ڈیم ان پانیوں کو روک کر ایک محفوظ ذخیرہ بنا سکتا ہے۔ اس طرح وہ علاقے جو آج سیلاب سے اجڑتے ہیں، محفوظ رہتے۔ یہ صرف انسانی جانوں اور فصلوں کا ہی تحفظ نہ ہوتا بلکہ انفراسٹرکچر، سڑکیں، پل، اسکول اور ہسپتال بھی بچ جاتے۔ یوں ملک کو اربوں روپے کا نقصان سہنا نہ پڑتا.
کالا باغ ڈیم صرف پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ نہیں بلکہ یہ بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان اس وقت مہنگی بجلی اور درآمدی ایندھن پر انحصار کرتا ہے جس سے نہ صرف مہنگائی بڑھتی ہے بلکہ بیرونی قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کالا باغ ڈیم سے ہزاروں میگاواٹ سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو گھروں، صنعتوں اور کھیتوں کو توانائی فراہم کرے گی۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا تو پاکستان کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات مل جاتی اور صنعتی پہیہ بلا تعطل چلتا رہتا۔ نتیجتاً روزگار بڑھتا اور معیشت میں استحکام آتا۔
پاکستان کی زراعت پانی کی کمی کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ ہر سال لاکھوں ایکڑ زمین صرف اس لیے بنجر رہتی ہے کہ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کالا باغ ڈیم اس مسئلے کا بہترین حل ہے۔ اس میں جمع ہونے والا پانی صوبوں کی ضرورت کے مطابق تقسیم ہو سکتا ہے اور اس سے گندم، کپاس، گنا اور چاول جیسی اہم فصلوں کی پیداوار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ جب کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوراک میں خود کفیل ہو گا اور درآمدی بلوں میں نمایاں کمی آئے گی۔
کالا باغ ڈیم کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اختلافات ہیں۔ مختلف صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں جس کی وجہ سے یہ قومی منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈیم صرف ایک صوبے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے۔ خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان سب اس کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔ اگر یہ ڈیم بن جاتا ہے تو نہ صرف سیلاب سے تحفظ ملے گا بلکہ چاروں صوبوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی بھی ملے گا۔ اس سے قومی وحدت بڑھے گی اور صوبوں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا۔
آج ہمارے سامنے ایک اہم سوال ہے – کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پانی کی قلت، بھوک اور اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا انہیں خوشحال، سرسبز اور روشن پاکستان دینا چاہتے ہیں؟ کالا باغ ڈیم بنانا اب محض ایک منصوبہ نہیں رہا بلکہ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے آج فیصلہ نہ کیا تو کل ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وہ ہمیں یہ طعنہ دیں گی کہ ہم نے اپنی سیاست اور اختلافات کی خاطر ان کا مستقبل تاریک کر دیا۔
پاکستان کو آج پہلے سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، بارشوں کے پیٹرن بدل رہے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اس صورتحال میں کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کو مزید تاخیر کا شکار کرنا قومی جرم ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم سیاست سے بالاتر ہو کر قومی سوچ اپنائیں اور اپنی آواز بلند کریں۔
کالا باغ ڈیم پاکستان کے لیے خوشحالی، ترقی اور بقا کی ضمانت ہے۔ یہ صرف سیلاب سے بچاؤ کا منصوبہ نہیں بلکہ یہ بجلی، زراعت، خوراک اور معیشت کا نجات دہندہ ہے۔ اگر ہم نے آج یہ فیصلہ کر لیا تو آنے والی نسلیں ہمیں یاد رکھیں گی کہ ہم نے ان کے لیے محفوظ، روشن اور خوشحال پاکستان چھوڑا۔ لیکن اگر ہم نے تاخیر کی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ لہٰذا، یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر ایک قومی مطالبہ بنائیں: کالا باغ ڈیم اب ایک انتخاب نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کا فیصلہ ہے
Leave a Reply