Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور عوام کی بے بسی

Articles , / Tuesday, September 2nd, 2025

rki.news

تحریر: شفیق ماجد

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دریاؤں، پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ یہ جغرافیہ اپنی خوبصورتی اور زرخیزی کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات کے امکانات بھی بڑھا دیتا ہے۔ ان آفات میں سب سے زیادہ تباہ کن آفت سیلاب ہے جو ہر چند سال بعد ملک کے مختلف حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ سیلاب نہ صرف گھروں کو اجاڑ دیتا ہے بلکہ کھیتوں، روزگار اور زندگی کے دیگر تمام پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

پاکستان میں سیلاب کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے نمایاں وجہ مون سون کی بارشیں ہیں جو جون سے ستمبر تک ہوتی ہیں۔ ان بارشوں کی شدت دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں طغیانی کا باعث بنتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ شمالی علاقوں کے گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا ہے، جو بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی، دریاؤں کے کناروں پر غیر منصوبہ بند آبادی، نکاسی آب کے ناقص نظام اور ڈیموں کی کمی بھی سیلاب کی شدت کو بڑھا دیتے ہیں۔

سیلاب کے نقصانات بے حد ہولناک ہیں۔ ہر سال سینکڑوں افراد اس آفت میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ وہ بروقت محفوظ مقامات پر نہیں پہنچ پاتے۔ لاکھوں خاندان اپنے گھروں سے محروم ہو جاتے ہیں اور کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ زرعی معیشت پر بھی کاری ضرب پڑتی ہے۔ کپاس، گندم، چاول اور گنا جیسی فصلیں پانی میں ڈوب کر برباد ہو جاتی ہیں، جس سے کسانوں کی سال بھر کی محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ دیہی زندگی میں مال مویشی قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں مگر سیلاب ان کو بھی بہا کر لے جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پل، سڑکیں، اسکول اور اسپتال بھی پانی کی نذر ہو جاتے ہیں، جس سے پورا انفراسٹرکچر مفلوج ہو جاتا ہے۔

سیلاب کے دنوں میں عوام سب سے زیادہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں اور دوسری طرف گھر اور روزگار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ خیموں میں یا کھلے میدانوں میں پناہ لینے والے متاثرین خوراک، پینے کے صاف پانی، ادویات اور بنیادی سہولیات کے شدید فقدان کا شکار رہتے ہیں۔ بچے بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بزرگ اپنی باقی ماندہ توانائی صرف زندہ رہنے کی کوشش میں صرف کر دیتے ہیں۔ ان حالات میں اکثر متاثرین کے دل میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر بروقت منصوبہ بندی کی جاتی تو کیا یہ سب کچھ ٹالا جا سکتا تھا؟

حکومت اور فوج کی جانب سے سیلاب کے دوران امدادی سرگرمیاں ضرور کی جاتی ہیں۔ فوجی جوان کشتیاں اور ہیلی کاپٹر استعمال کر کے متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچاتے ہیں۔ کئی فلاحی ادارے بھی خوراک اور ادویات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ اقدامات عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی پانی اترتا ہے، متاثرین پہلے سے بھی زیادہ مشکلات میں گھر جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ چھت باقی رہتی ہے، نہ زمین، نہ روزگار۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لیے طویل المدتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان کو مزید ڈیموں اور آبی ذخائر کی ضرورت ہے تاکہ اضافی پانی کو محفوظ کر کے نہ صرف بجلی پیدا کی جا سکے بلکہ سیلاب کی شدت بھی کم ہو۔ شہروں اور دیہات میں نکاسی آب کا مؤثر نظام قائم کیا جانا چاہیے تاکہ بارش کا پانی کھڑا نہ ہو۔ جنگلات کی کٹائی روکنے اور شجرکاری کو فروغ دینے کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ درخت زمین کو مضبوط بناتے ہیں اور بارش کے پانی کو جذب کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بروقت وارننگ سسٹم بنایا جا سکتا ہے تاکہ لوگوں کو پہلے سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت فوری اقدامات کر سکیں۔

سیلاب ایک قدرتی آفت ضرور ہے لیکن اس کی تباہ کاریوں کی شدت ہماری غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جب تک حکومت، ادارے اور عوام مل کر سنجیدگی سے اقدامات نہیں کرتے، ہر سال وہی مناظر دہرائے جاتے رہیں گے جن میں لاکھوں لوگ بے گھر اور بے سہارا ہو جاتے ہیں۔ اگر ابھی سے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے تو سیلاب کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر عوام اسی طرح بے بسی کی تصویر بنے رہیں گے اور سیلاب ان کی زندگیاں اجاڑتا رہے گا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International