rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا
آج کل ہمارے چاروں طرف ایک بے ہنگم شور کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ کہیں ترقی کا شور ہے ،تو کہیں مادر پدر آزادی کا شور ، کہیں ٹیکنالوجی میں کارہائے نمایاں کا شور ہے، تو کہیں سوشل میڈیا پر فحاشی کا جن بے قابو ہو کر شور مچا رہا ہے، کہیں دولت کے انبار جمع کرنے کے جنون کا شور ہے ، تو کہیں پرتعیش زندگی گزارنے کے لئے بے سکونی کمانے کا شور ہے ۔ اتنا زیادہ بے ہنگم شور ہے کہ انسان کی زندگی سے سکون کے لمحات کسی حرف گمشدہ کی طرح غائب ہو گئے ہیں۔ علم و ہنر کے بل بوتے پر چہار عالم اپنے لئے تسخیر کرنے کی دعویدار قومیں، اخلاقیات میں اتنی پست ہو چکی ہیں، کہ روزانہ زر و جواہر کے سامنے اخلاق کا جنازہ پڑھا کر دفنایا جا رہا ہے؟ رحم دلی کا دعوٰی کرنے والے انسان ، جانوروں پر تو ترس کھانے کی اداکاری کر لیتے ہیں، مگر حقیقت میں اتنے جابر ہو چکے ہیں کہ کسی انسان کی جان لینے میں کوئی ہچکچاہٹ تک محسوس نہیں ہوتی۔ رحم ان کے دلوں میں ناپید ہو چکا ہے۔ امن شہر کی گلیوں میں یتیم ہو کر کسی کونے میں دبک کر رو رہا ہے۔ انسانی خون روز پانی کی طرح بہہ رہا ہے لیکن اقوام عالم اپنی ذاتی عیاشیوں می اتنی گمراہ ہو چکی ہے کہ اس کے شب و روز پر ان ظالمانہ کارروائیوں پر سوائے مذمت کے اور کچھ کرنے کا وقت ہی نہیں بچ پایا ہے۔ اب ایک اہم سوال جو سب کے ذہنوں پر متواتر دستک دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس ترقی کے نام پر بے سکونی ہی کمائی جا سکتی ہے، تو سکون کی دوا آخر کس حکیم کے آستانے پر ملے گی ؟
اس سوال کے جواب پر ساری کائنات ایک نام پر متفق ہے اور صرف وہی ایک نام ہمیشہ دہراتی ہے جو نام ہے نبی آخرالزماں جناب حضرت محمد ﷺ کا۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
جن ﷺ کے بارے میں اللہ تبارک و تعالٰی قرآن میں کھل کر تمام عالم کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے
اگر ہم اسوہ رسول ﷺ ہر عمل پیرا ہو جائیں گے تو ہمیں دنیا و آخرت کا نا صرف سکون حاصل ہو جائے گا بلکہ اس دنیا کو ہی جنت بنانے کے خواب کی تعبیر بھی حاصل ہو جائے گی ۔
اگر ہم امت کے کردار کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہماری زندگیوں میں نہ تو وہ عدل ہے جس کا درس ہمیں دیا گیا تھا ، اور نہ وہ رحم ہے جو آپ ﷺ کا شعار تھا ۔
دنیا کے تمام مسائل بددیانتی، لالچ،ناانصافی اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ سب کا ایک ہی حل ہے۔ اسوہ رسول ﷺ پر عمل ۔ افسوس ہم مغرب کے فیشن اور فلسفوں کی گلیوں کی خاک چھاننے میں تو مشغول نظر آتے ہیں، جو اگر اتنے ہی قابل عمل ہوتے تو ہمیں ان معاشروں میں اخلاقیات کا جنازہ نہ دیکھنا پڑتا۔
اور تاریخ ہمیں وہ سنہرے دن دکھاتی ہے جب مدینہ کی گلیوں میں نبی پاک ﷺ نے ہر ایک کے لئے، امیر ہو یا غریب ایک جیسا قانون نافذ کرنے کا سبق پڑھایا تھا، تو کیسے وہاں سکون کا راج قائم ہو گیا تھا۔ عدل کی جڑیں مضبوط ہو گئی تھیں۔ آج جب انصاف کی لاش ہمارے سامنے پڑی ہے، تو اس پر نوحہ کناں کوئی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں بے سکونی کا راج ہے، اور یہی ہماری تباہی کہ اصل وجہ ہے ۔ ایک وقت تھا جب روٹی بانٹ کر کھانے کی نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل ہوتا تھا تو سکون تھا، اور آج اربوں روپے کے بجٹ بھی غربت نہیں مٹا پا رہے ہیں، کیونکہ انصاف کے بغیر دولت بھی صرف فتنہ بڑھاتی ہے۔
جب حضور ﷺ نے عورت کو ماں بیٹی بہن اور بیوی کے روپ میں عزت کی چادر پہنائی، تو خاندان مضبوط ہوئے۔ ان گھروں میں وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام نے جنم لیا ، کئی فاتحین نے اس دنیا میں اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔آج جب مغربی تہذیب نے عورت کو اشتہار اور زینت بنا کر دولت کمانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، تو وہی خاندان جو عزت و ناموس کی نشانیاں تھے سر بازار رسوا ہو رہے ہیں۔ خاندانی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم خواب غفلت سے جاگ جائیں۔ اپنی زندگیوں میں اسوہ رسول ﷺ کو زندہ کریں۔ نبی مکرم ﷺ کے بتائے فرامین کے مطابق زندگی گزارنے کو اپنا شیوہ بنا لیں۔ اگر ہم اس سے روگردانی کرتے رہے تو ترقی کے اس شور میں بربادی کی تعمیر ہوتی عمارتوں میں سوائے بے سکونی اور تنہائی کے ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ نہ یہ دنیا ہماری بن سکے گی اور نہ ہی آخرت میں کامیاب قرار دئیے جائیں گے۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ہمیں صدق دل سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں نبی صادق ﷺ کے اس درس کو دوبارہ پڑھ کر اپنی زندگیاں روشن کرنے کی ضرورت ہے، جس کی روشنی کو کبھی اندھیرا نگل نہیں سکتا۔ جو دو جہانوں کی کامیابی کی کنجی ہے۔ انسانیت کی بقا اور سکون کا ایک ہی نسخہ ہے، اور وہ ہے اسوہ رسول ﷺ ۔
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
Leave a Reply