rki.news
تحریر: احسن انصاری
پاکستان کی تاریخ میں چند دن ایسے ہیں جو ہمارے قومی شعور اور اجتماعی یادداشت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان میں سب سے نمایاں دن 6 ستمبر 1965 ہے، جب بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کر کے لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ دشمن یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ چند گھنٹوں میں لاہور کے جمخانہ میں فتح کا جشن منائے گا، مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ پاکستانی افواج اور عوام ایک ناقابلِ تسخیر چٹان بن کر اس کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ یہی دن آج “یومِ دفاعِ پاکستان” کے نام سے منایا جاتا ہے اور یہ ہماری قومی تاریخ کا روشن باب ہے۔
6 ستمبر کی صبح جب دشمن نے بین الاقوامی سرحد عبور کی تو پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو گئی۔ جوانوں نے سرحدوں پر اپنی جانیں قربان کیں تو دوسری طرف عوام نے خون عطیہ کیا، فوجی گاڑیوں کو ایندھن فراہم کیا اور گھروں کے دروازے فوجیوں کے لیے کھول دیے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کے گلی کوچے ایک ہی نعرے سے گونج رہے تھے: “پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ”۔
اس جنگ میں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کا کردار ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا، جنہوں نے مسلسل پانچ دن دشمن کی توپوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جان قربان کی۔ اسی طرح میجر شبیر شریف، کیپٹن محمد سرور شہید اور دیگر جانبازوں کی بہادری نے اس قوم کو یہ سبق دیا کہ وطن کی حفاظت کے لیے جان دینا سب سے بڑی سعادت ہے۔
پاک فضائیہ نے 1965 کی جنگ میں دنیا کو حیران کر دیا۔ اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ یہ کارنامہ نہ صرف پاک فضائیہ کی مہارت کا ثبوت تھا بلکہ دشمن کے حوصلے بھی پست کر گیا۔ اس کے علاوہ بے شمار گمنام شاہینوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وطن کی فضاؤں کو محفوظ بنایا۔
یومِ دفاع ہمیں اُن شہداء کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپنے لہو سے اس دھرتی کو سینچا۔ وہ مائیں جنہوں نے بیٹوں کو ہنستے ہوئے رخصت کیا، وہ بہنیں جنہوں نے بھائیوں کو جھولوں سے وطن کی سرحدوں تک پہنچایا، اور وہ بچے جنہوں نے یتیمی برداشت کر کے بھی فخر کیا کہ ان کے والد نے وطن کے لیے جان دی۔ یہ سب قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان صرف ایک جغرافیہ نہیں بلکہ ایک نظریہ اور ایمان کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔
1965 کی جنگ کے بعد پاکستان کو ایک اور امتحان کا سامنا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں ہوا۔ 2001 کے بعد پاکستان نے ہزاروں جوان دہشت گردی کے خلاف قربان کیے۔ آپریشن راہِ راست، ضربِ عضب اور ردالفساد میں افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی اداروں نے ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے عظیم قربانیاں دیں۔ یہ جنگ داخلی سلامتی کی تھی لیکن اس میں بھی ہمارے جوانوں نے وہی حوصلہ دکھایا جو 1965 میں دکھایا تھا.
پاکستان کی دفاعی تاریخ میں ایک اور سنہری باب اُس وقت رقم ہوا جب بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کی فضاؤں کو للکارنے کی کوشش کی۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اس دوران پاکستانی پائلٹس نے بھارتی فضائیہ کے پانچ سے چھ جدید ترین جنگی طیارے، بشمول رافیل، کو مار گرایا۔ یہ کامیابی نہ صرف پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ صلاحیت کا مظہر تھی بلکہ دنیا کو یہ واضح پیغام بھی دیا کہ پاکستان کی فضائیں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔ رافیل جیسے مہنگے اور جدید طیاروں کی شکست نے بھارتی حکام کے دعوؤں کو زمین بوس کر دیا اور پاکستان کی عسکری طاقت کا لوہا دنیا نے تسلیم کیا۔
یومِ دفاع صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ مستقبل کی ذمہ داریوں کا بھی اعلان ہے۔ آج کی نوجوان نسل کو یہ سبق لینا چاہیے کہ 1965 کی طرح آج بھی وطن کا دفاع صرف ہتھیاروں سے ممکن نہیں بلکہ اتحاد، قربانی اور محنت سے ممکن ہے۔ ہمیں تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ کر پاکستان کو دفاعی اور معاشی لحاظ سے مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے اداروں، معیشت اور ٹیکنالوجی کو مضبوط کیا تو کوئی دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔
یومِ دفاع کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا بھی دن ہے۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان نے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم کیا تھا اور آج بھی وہ عزم برقرار ہے۔ بھارتی مظالم کے باوجود کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ یومِ دفاع ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کشمیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ہم ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ رہیں گے۔
آج پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں معاشی مشکلات، دہشت گردی کی نئی لہریں، اور خطے میں بھارتی سازشیں شامل ہیں۔ ان سب کا مقابلہ اسی جذبے سے کیا جا سکتا ہے جو 6 ستمبر 1965 کو قوم پر چھایا ہوا تھا۔ اگر اس وقت ایک چھوٹی سی قوم دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا سکتی تھی تو آج بھی اتحاد اور قربانی کے ذریعے ہم ہر بحران سے نکل سکتے ہیں۔
6 ستمبر صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک سبق ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قربانی، اتحاد اور عزم سے ہی ایک قوم زندہ رہتی ہے۔ آج جب پاکستان داخلی اور خارجی محاذوں پر نئے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، ہمیں اسی جذبے کی ضرورت ہے جو 1965 کے دنوں میں پوری قوم پر چھایا ہوا تھا۔ یقین، قربانی اور اتحاد ہی ہماری اصل طاقت ہیں۔ جب تک یہ جذبہ زندہ ہے پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔
(Email. aahsan210@gmail.com
Leave a Reply