rki.news
(تحریر عائشہ مظفر)
نیپال اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سیاسی بے چینی اور معاشی مشکلات ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھنے میں آیا جو سوشل میڈیا پر پابندی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے باعث شروع ہوا۔ نوجوان نسل خصوصاً طلبہ اور شہری سماجی آزادی اور بہتر حکمرانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے فیس بک اور یوٹیوب جیسی ایپس پر پابندی نے عوامی غصے کو بھڑکا دیا، جس کے نتیجے میں پرتشدد مظاہرے، جانی نقصانات اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ اگرچہ حکومت نے بعد میں پابندی ختم کر دی، لیکن اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ سیاسی صورتحال کتنی نازک ہے اور عوام قیادت سے کتنے ناخوش ہیں۔
ان سیاسی مسائل کے باوجود نیپال کی معیشت نے کچھ مزاحمتی قوت دکھائی ہے۔ مالی سال 2024-25 کے لیے شرح نمو 4.4 سے 4.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جسے پن بجلی کے منصوبے، زراعت، سیاحت اور بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری سہارا دے رہے ہیں۔ دھان کی پیداوار بہتر ہوئی ہے اور توانائی کے نئے منصوبے مستقبل میں بجلی برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن نیپال کی معیشت اب بھی شدید خطرات کا شکار ہے کیونکہ بار بار آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈز انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی آفات ظاہر کرتی ہیں کہ پہاڑی اور قدرتی آفات سے دوچار ملک میں ترقی کس قدر نازک ہے۔
نیپال کو سماجی و معاشی مسائل نے مزید الجھا دیا ہے۔ پیداواری صلاحیت کم ہے، بڑے منصوبے تاخیر کا شکار رہتے ہیں اور کاروباری ماحول خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کمزور ہے۔ بدعنوانی اور پالیسیوں کی بار بار تبدیلی سرمایہ کاروں کو دور رکھتی ہے، جبکہ ترسیلات زر پر انحصار معیشت کو بیرونی منڈیوں سے باندھ دیتا ہے۔ لاکھوں نیپالی خاندان بیرون ملک سے بھیجی گئی رقوم پر انحصار کرتے ہیں لیکن اگر گھریلو سطح پر روزگار اور مواقع نہ پیدا کیے گئے تو یہ انحصار ملک کے لیے طویل مدتی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
مستقبل کے حوالے سے نیپال کی سمت کا انحصار اصلاحات اور قیادت پر ہے۔ اگر اچھی حکمرانی، مضبوط ادارے اور انفراسٹرکچر و افرادی قوت میں سرمایہ کاری کو یقینی بنایا گیا تو ملک بہتر ترقی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر بدعنوانی، کمزور پالیسی اور سیاسی عدم استحکام جاری رہا تو نیپال ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا اور نوجوان بیرون ملک نقل مکانی جاری رکھیں گے۔
موجودہ حالات میں نیپال اپنے پڑوسی ممالک کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان سب کو یہ دیکھنا چاہیے کہ سیاسی آزادی کو دبانے سے عوامی ردعمل جنم لیتا ہے، ماحولیاتی آفات کی تیاری نہ کرنے سے بار بار نقصان ہوتا ہے، اور صرف ایک شعبے یا ترسیلات پر انحصار معیشت کو غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔ نیپال کے تجربات بتاتے ہیں کہ اچھی حکمرانی، شفاف ادارے، آفات کے خلاف مزاحمت اور متنوع معیشت ہی پائیدار ترقی کی ضمانت ہیں۔
بالآخر نیپال کا مستقبل اس کے اپنے فیصلوں پر ہے لیکن یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ اس کے پڑوسی بروقت سبق حاصل کرتے ہیں یا نہیں۔ جنوبی ایشیا میں اب بقا اور ترقی کے لیے استحکام، جواب دہی اور لچک لازمی شرائط ہیں۔ اگر نیپال کامیاب ہوتا ہے تو یہ پورے خطے کے لیے تحریک کا باعث ہوگا، لیکن اگر ناکام رہا تو اس کی جدوجہد دوسروں کے لیے ایک انتباہ ثابت ہو گی۔
Leave a Reply