rki.news
ر سال 11 ستمبر کو پوری قوم نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی برسی مناتی ہے۔ 1948ء میں ان کا انتقال، قیامِ پاکستان کے صرف ایک سال بعد، قوم کے لیے ایک ناقابلِ تلافی صدمہ تھا۔ جناح صرف ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ ایک ایسے مدبر اور بصیرت رکھنے والے قائد تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے خواب کو ایک حقیقت میں ڈھال کر پاکستان جیسی آزاد مملکت کی بنیاد رکھی۔ ان کی قیادت، عزم اور سیاسی بصیرت آج بھی پاکستانی عوام اور عالمِ اسلام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
قائداعظم 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے ان کی ذہانت، محنت اور ذمہ داری کا احساس نمایاں تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ برطانیہ گئے اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد انہوں نے وکالت کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی فصاحت و بلاغت اور قانونی مہارت کے باعث برصغیر کے بہترین وکلاء میں شمار ہونے لگے۔ مگر ان کی اصل منزل عدالت نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں تھی جہاں وہ تاریخ کے دھارے کو بدلنے والے تھے۔
سیاسی زندگی کے ابتدائی دنوں میں جناح کو ’’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے دونوں برادریوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں اور ایک متحدہ ہندوستان کے قائل تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ان پر عیاں ہوگئی کہ مسلمان اپنی جداگانہ شناخت اور مفادات کے تحفظ کے بغیر ایک جمہوری ہندوستان میں انصاف نہیں پا سکتے۔ کانگریس کی تنگ نظری اور عدم برداشت نے انہیں اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ہی ان کے مستقبل کی ضمانت ہے۔
قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھری۔ 1940ء کی قراردادِ لاہور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی جدوجہد میں ایک سنگِ میل ثابت ہوئی۔ جناح کی ناقابلِ تسخیر محنت، سیاسی بصیرت اور استقامت کے نتیجے میں بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ اس دور کی ان کی تقاریر آج بھی انصاف، مساوات اور مذہبی آزادی کا پیغام دیتی ہیں اور پاکستان کے لیے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں۔
بدقسمتی سے قائداعظم اپنی اس عظیم جدوجہد کے ثمرات زیادہ دیر نہ دیکھ سکے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ان کی صحت بگڑتی چلی گئی۔ اور پھر 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے انتقال کی خبر نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا۔ عوام اپنے آپ کو یتیم محسوس کرنے لگے کیونکہ وہ صرف ایک لیڈر نہیں بلکہ ایک رہنما اور نجات دہندہ کھو چکے تھے۔
قائداعظم کی برسی ہمیں صرف ان کی جدوجہدِ آزادی یاد دلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کے وژن پر غور کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا پاکستان چاہا تھا جو جمہوری اصولوں پر استوار ہو، جہاں تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب و مسلک مساوی حقوق حاصل ہوں۔ 11 اگست 1947ء کی اپنی تاریخی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ہر شخص اپنے مندر، مسجد یا عبادت گاہ جانے میں آزاد ہے۔ یہ الفاظ آج بھی پاکستان کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
افسوس کہ آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے، وہ ہمیں قائداعظم کے اصولوں سے دوری کی یاد دلاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور سماجی تقسیم جیسے مسائل کا واحد حل قائد کے وضع کردہ اصول ’’اتحاد، ایمان اور قربانی‘‘ میں ہی پوشیدہ ہے۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں تو پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے اور اپنے بانی کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔
قائداعظم کی برسی محض سوگ منانے کا دن نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں پر غور کریں۔ ان کی قربانیوں کو یاد کرنے کا اصل مقصد ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہے تاکہ پاکستان ایک خوشحال، روادار اور انصاف پر مبنی ریاست بن سکے۔
دنیا بھی جناح کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے۔ مشہور مؤرخ اسٹینلی وولپرٹ نے لکھا تھا: ’’تاریخ کے دھارے کو بدل دینے والے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔ دنیا کے نقشے میں تبدیلی لانے والے تو اور بھی نایاب ہیں۔ اور ایک نئی ریاست قائم کرنے والے تو شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام سر انجام دیے۔‘‘ یہ الفاظ جناح کی عظمت اور ان کے مقام کو بہترین انداز میں اجاگر کرتے ہیں۔
آج جب قوم اپنے بانی کو یاد کر رہی ہے تو ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان کے خوابوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ ان کا مشن انصاف، مساوات اور رواداری کا تھا، جس کی تکمیل ہی ان کے لیے حقیقی خراجِ عقیدت ہوگا۔ قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری ادا کرے تو پاکستان ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔
11 ستمبر کو ہم اپنے سر عقیدت سے جھکاتے ہیں اور اس عظیم قائد کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں آزادی کا تحفہ دیا۔ ان کا خواب ہمیں وطن دیا، ان کی جدوجہد نے ہمیں شناخت دی اور ان کا وژن ہمیں راستہ دکھاتا رہا۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس خواب کی حفاظت کریں اور پاکستان کو قائداعظم کے خوابوں کے مطابق ایک مضبوط اور روشن خیال ریاست بنائیں۔
Leave a Reply