Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سخت الفاظ کتنے اذیت ناک ہوتے ہیں ؟

Articles , Snippets , / Sunday, September 14th, 2025

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
اس گلشن رنگ و بو کی رونق تو حسنِ گفتار اور انداز بیاں ہے۔شاید اسی حوالے سے شاعر نے فرمایا:.
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جاۓ تیرے دل میں میری بات(اقبالؒ)
وقت کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ حسنِ گفتگو سے دلوں جگہ پیدا کی جاۓ۔بیانیہ میں بھی تو ایک رنگ٬خوشبو اور محبت کی شیرینی ہونی چاہیے۔سماج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جب انداز گفتگو کی نوبت آتی ہے تو مقرر یہی سمجھتے ہیں کہ جس قدر طاقتور اور سخت الفاظ استعمال ہوں گے تو سامعین کے لیے پرتاثیر بیانیہ ثابت ہوں گے۔وقت کا تقاضا تو ہے کہ دل میں اترجانے والی باتیں انتہائی سلجھے انداز سے کی جائیں تو دلوں پر نقش ہوتی ہیں۔اس لیے انداز گفتگو میں تو اپنائیت اور محبت کا عنصر غالب رہنا چاہیے۔حالات کے تناظر میں جب بات کی جاۓ تو پر اثر ہوتی ہے۔بقول شاعر:-
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے(اقبالؒ)
اس لیے مقررین جس شعبہ سے ہوں ۔انداز بیاں میں اعتدال اور میانہ روی کے اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔اچھے انداز سے کی جانے والی تقاریر ہی ق سامعین کے لیے مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔اس ضمن میں اکثر مقررین جوش خطابت کی موجوں میں محو ہو جاتے ہیں جو اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ
الفاظ کی طاقت کس قدر اہم ہوتی ہے ۔الفاظ اور کلمات کی طاقت تو ایک ایسی حقیقت ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔عقل مند اور دانشور لوگ تو انداز بیاں اور طرز گفتگو کے اصول مدنظر رکھتے ہیں۔ یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات، کسی کے کہے ہوئے الفاظ اتنے تلخ ہوتے ہیں کہ انسان کو لمحوں میں توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی شدت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ نہ صرف سننے والوں کی روح متاثر ہوتی ہے بلکہ نفرت کے اثرات بھی پیدا ہونے لگتے ہیں۔انسانیت کی معراج تو یہی ہے کہ دلوں میں اترنے والے الفاظ دوران خطاب استعمال کیے جائیں۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب سخت
اور تکلیف دہ جملے سنتا ہے، تب اسے احساس ہوتا ہے کہ الفاظ کی کاٹ کسی تیز دھار تلوار سے کم نہیں ہوتی۔دانشور تو یہ بھی لکھتے ہیں بعض اوقات تو یہ تلخ الفاظ اورکلمات دل کی دنیا میں ایسی خاموشی پیدا کر دیتے ہیں جو چیخنے سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ ہم کچھ پل کے لیے مکمل طور پر خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے ہمارے اندر کوئی شور مچانے کی ہمت ہی نہ رہی ہو۔ تلخ اور سخت جملے کسی تقریب میں بولے جاتے ہوں یا نجی محفل میں انسان کی شخصیت سخت متاثر ہوتی ہے۔اس کے برے اثرات پیدا ہونے سے سنجیدہ مزاج لوگ تو خاموشی سے الگ ہو جاتے ہیں۔یہ بات اچھی طرح جان لینے کی ضرورت ہے کہ تلخ جملوں کے اثرات وقتی نہیں ہوتے بلکہ دیرپا ہوتے ہیں۔ بزرگوں کا قول ہے”پہلے تولو اور پھر بولو“ کے مصداق اگر بات کی جاۓ تو کس قدر پر اثر ہوتی ہے؟شاید اس بات کو کبھی محسوس بھی نہیں کیا گیا کہ کس قدر تلخ جملے سننے والوں کو گراں گزرتے ہیں۔عہد نو میں تو بات جھگڑے اور فساد تک بھی پہنچ جاتی ہے۔اس لیے وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق بات کی جاۓ تو بہتری پیدا ہوتی ہے۔بنیادی طور پر سب لوگ اس سماج اور معاشرے کے پھول ہیں۔ایک دوسرے کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔زہر گھولنے سے تو نفرت و حقارت جنم لیتی ہے۔اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوۓ تعمیری جملوں کا انتخاب کیا جاۓ تو سامعین بات سمجھ سکتے ہیں اور بات کرنے کا مقصد و مدعا بھی پورا ہو جاتا ہے۔میانہ روی اور خوش اسلوبی سے اجتماعات سے بات کی جاۓ تو انسان کی عظمت اور کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔اعتدال پسندی کا دامن ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ انسانیت کے احترام کے اصول اور اسلامی انداز خطابت کی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔تقاریر سیاسی ہوں کہ مذہبی٬سماجی ہوں کہ ادبی ایسے خوبصورت انداز سے سامعین کے سامنے پیش ہوں کہ دلوں میں سما جائیں۔تعمیر معاشرہ میں مقررین کا تو بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔اس لیے ایسے زاویہ خیال سے بات کی جاۓ کہ کردار زندہ رہے اور محبتوں کی خوشبو آۓ۔ایک اچھا مقرر تو دلوں کو جوڑتا اور پیام محبت دیتا ہے۔الفاظ کی نوعیت مدنظر رکھ کر ہجوم سے خطاب کرتا ہے۔معاشرہ اور سماج میں بے رونق اور بے وزن کلمات نوک زبان سے ادا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔انسانیت کی شخصیت کی عکاسی تو ان الفاظ سے ہوتی ہے جو وہ نوکِ زبان سے ادا کرتا ہے۔یہ وطن گلشن ہے اس کی رونق میں اضافہ حسنِ خیال سے کیا جاۓ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International