rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ماں کو اللہ جانے کیا خبط تھا کہ وہ ہمیں زندگی بتانے کے تمام گر خود سے ہی بتانا چاہتی تھی، اسے لاکھ سمجھاتے کہ اماں رہنے دو, ہم خود سیکھ جایں گے، گر گر کر، چوٹیں لگوا لگوا کر ہمیں خود ہی چلنا آ جاے گا مگر ماں تو ماں ہوتی ہے، راگنی ملہار سی، میٹھی مشری سی، اور ہمدرد سارے زمانے سے بڑھ کے سو وہ ہمیں جب کہیں اور جب کبھی موقع ملتا, عقل کی باتیں بتاتی ہی رہتی، جیسے کہتی ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی، پہاڑوں کو دور سے دیکھ کر خوش ہو لینا ہی اچھا ہے، اتنی محنت مشقت سے ان کو قریب جا کے دیکھنے سے ایک تو ان کی اصلیت واضح ہو جاے گی دوسرے ان تک پہنچنے کے لیے اپنی ضرورت سے زیادہ اور بے تحاشا محنت پہ شدید دکھ ہو گا مگر وہ کیا ہے ناں کہ. ہمارے اپنے دماغ میں بھی اک پیدایشی کیڑا تھا جو ہمیں ٹکنے نہ دیتا تھا لہٰذا ایک عرصے سے آپا سیدہ ندرت زہرا کی تعریفیں سن کے ہمارے کان تقریباً پک ہی چکے تھے، ہمیں ان کی نرم و نازک آواز اور حکمت سے بھری باتیں روبرو سننے کا بہت شوق تھا وہ تو اتفاق ایسا ہو گیا کہ ایک چیریٹی سکول کی نءی برانچ
کی افتتاحی تقریب کا دعوت نامہ ہمیں ملا جس کی صدارت محترمہ سیدہ جی کر رہی تھیں، اللہ تو واقعی دلوں کے بھید سے بھی آگاہ ہے اور ہر انسان سے ستر ماوں سے بڑھ کر پیار بھی کرتا ہے ہمیں اس بات پہ یقین تو پہلے بھی تھا مگر اب یقین مزید پختہ ہو گیا، ایک اور بات جو ماں بتاتی تھی اس پہ بھی یقین مزید پکا ہوا وہ آپ کو آخر میں بتاتے ہیں . خیر سکول کی افتتاحی تقریب تھی، معصوم، نمانے بچے صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے، کھچا کھچ بھرے ہوے ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، تقریب کے آغاز کے وقت سے بھی تقریباً ایک گھنٹہ اوپر ہو چکا تھا، تمام مہمانان گرامی تشریف لا چکے تھے ماسوائے صدارت کی کرسی پہ براجمان ہونے والی صدر محترمہ سیدہ جی کے، اور آخر کار سیدہ آ ہی گییں، ایک ضعیف و نزار بڑھیا، منحنی سی، فاقہ زدہ، پیلی کچور رنگت، چلنے کے لیے بھی سہاروں کی محتاج، شاید اسی لیے پہنچنے میں بھی دیر ہو گءی تھی خیر کرسی صدارت کو رونق بخشی گءی، تقاریر کے سلسلے شروع ہوے، بہت سے مخیر حضرات نے بڑے بڑے عطیات دیے، افتتاح کے بعد لذت کام و دہن کا سلسلہ شروع ہوا، لوگ دیوانہ وار سیدہ کے ساتھ ہاتھ ملانے، سلام لینے،تصاویر بنوانے، دعائیں لینے کے لیے آگے ہوے، کوی ان کی پلیٹ بھر رہا تھا تو کوی چاے کا کپ، مجھے یہ سب کچھ عجیب اس لیے لگ رہا تھا کہ ابھی تک سیدہ کی کوی بڑی بات میرے کانوں نے سنی نہ تھی اور نہ ہی میرے مشاہدے میں آی تھی اور پھر میرے سامنے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحب نے سیدہ سے ان کا نمبر مانگا، سیدہ نے شایستگی سے انکار میں سر ہلا دیا، لوگوں اور سماج پہ ہلکا ہلکا ٹانٹ کرتے ہوے جہازی سایز کے سموسے سے بھی نبرد آزما رہیں، میں نے غلطی سے پوچھ لیا کیا کرتی ہیں؟ سیدہ سارا دن، انتہائی ترش لہجے میں بولیں میرے کچھ کرنے یا نہ کرنے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے، شرم سے میری پیشانی عرق آلود ہو گءی، مجھے اپنے ساتھ بیٹھی ہوی اس ڈگریوں کے پلندے میں غرق، استاد، دانشور، نقاد ضعیف العمر خاتون سے اتنا خوف آیا کہ میری سانسیں بند ہونے لگیں، اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے میں نے انتہائی شایستگی سے سیدہ کا نمبر مانگ لیا، مگر سیدہ بھی شاید پتھر کے زمانے سے تھیں انھوں نے اس مرتبہ اور بھی زیادہ شایستگی سے انکار کا پتھر میرے منہ پہ دے مارا مجھے سیدہ کا پورا بدن گھپ سیاہ دھویں کے مرغولے میں دھویں جیسا ڈراونا اور گھپ سیاہ اندھیرے جیسا لگا، میں بنا کچھ کہے تیزی سے ہال سے باہر نکل آی، باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی تھی اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، ماں کی کہی ہوئی اس بات پہ یقین تو پہلے بھی تھا کہ پہاڑ دور ہی سے اچھے لگتے ہیں مگر سیدہ سے ملنے کے بعد یہ یقین، یقین در یقین ہو چکا تھا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Leave a Reply