rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
کائنات کا گلشن کس قدر دلرباء اور خوشنما ہے۔انسان کے کردار اور مسکراہٹ کی خوشبو سے اس کا حسن نکھرتا ہے۔یہ حقیقت تو مسلمہ ہے کہ حسنِ اخلاق کی خوشبو اور حسنِ سلوک کی مہک انسان کے گوشہ کاٸنات کے رخصت ہونے کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔اچھے رویے ہی تو انسان کا سرمایہ ہوتے ہیں جن سے سماج کی رونق اور بہاریں قائم رہتی ہیں۔انسانیت کی بقاء کے لیے مثبت کردار کی ضرورت ہے۔کیونکہ اللہ کا قرآن بھی تعلیم دیتا ہے ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے انسانیت کو بچایا(القرآن)
اچھے جذبات اور احساسات تو زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔انسانی رشتوں کی اہمیت و افادیت تو سماج کی زینت ہے۔انسانیت سے محبت کے اصول بھی تو یہی ہیں کہ دوسروں کا احترام اور قوت برداشت کا خیال رکھا جاۓ۔خود داری تو ایسا قیمتی جوہر نایاب ہے جس کی چمک سے زندگی کی عبارت کی رعناٸی کو درخشانی ملتی ہے۔زندگی کا حسن تو یادوں کے دریچوں سے بھی حسین و جمیل رہتا ہے۔یہ سبق تو محسن انسانیت اور معلم انسانیت نے بھی انسانیت کو پڑھایا اور اس کی روشن کرنوں سے دل آج بھی رنگین ہیں۔اس لیے اچھا رہنا اور دوسروں کے بارے میں اچھا سوچنا سب سے بڑی بھلائی ہے۔نیکی اور انکساری سے زندہ رہنا تو مسلمان کے لیے قابل رشک ہوتا ہے۔باغِ چمن کی رونق اور حسن انسان کے کردار اور اوصاف کمال سے ہے۔جو کوئی جس قدر اچھے ماحول میں زندہ رہتا ہے ترقی اس کے قدم چومتی ہے۔معاملات خوش اسلوبی سے طے پائیں تو حیرت انگیز اثرات سامنے آتے ہیں۔اقتدار اور اختیارات سب عارضی ہیں۔سب کچھ رب کاٸنات کے دست قدرت میں ہے۔بقول شاعر:-
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا
اللہ کریم کی شان کے کرشمے تو کائنات کے گوشہ گوشہ میں موجود ہیں۔پھول کس قدر خوش رنگ اور سجیلے اور خوشبو کس قدر دل پسند٬انسان کو بھی اس کائنات کی خوبصورتی اور دلکشی کے لیے کردار ادا کرنے کی سعی برقرار رکھنی چاہیے۔مسلمان کی شان تو بہت بلند ہے۔ علم سے آراستہ اورباعمل مسلمان تو گلشنِ کائنات کی رونق دوبالا کرنے میں مثالی کردار ادا کرتا ہے۔بقول شاعر:-
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا(اقبالؒ)
Leave a Reply