rki.news
(تحریر عائشہ مظفر)
سعودی عرب خلیجی تعاون کونسل (GCC) کا بھی رکن ہے، اس لیے پاکستان کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدہ محض دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے برطانیہ کے دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ایک نئے دور کا آغاز ہے اور مستقبل میں اس کا دائرہ دیگر خلیجی ممالک تک بھی پھیل سکتا ہے۔ اس بیان نے اس دفاعی تعاون کو مزید اہم بنا دیا ہے کیونکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی شراکت داری پورے خلیج کے سلامتی ڈھانچے کو ازسرنو ترتیب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ معاہدہ 17 ستمبر 2025 کو ریاض میں طے پایا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کی موجودگی میں دستخط ہونے والے اس معاہدے میں دونوں ملکوں نے مشترکہ دفاع کے عزم کا اظہار کیا۔ اعلامیے کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر جارحیت ہوتی ہے تو اسے دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس نوعیت کے الفاظ اس معاہدے کو محض دفاعی تعاون سے بڑھا کر ایک باقاعدہ سیکورٹی گارنٹی کی شکل دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی خطہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف ایران اور بعض خلیجی ممالک کے تعلقات میں تناؤ ہے، تو دوسری جانب یمن اور غزہ جیسے تنازعات نے خطے کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان جیسے ایٹمی قوت رکھنے والے ملک کے ساتھ دفاعی اتحاد خطے کے لیے ایک نئی حکمتِ عملی کی علامت ہے۔
سعودی عرب GCC کا سب سے بڑا اور بااثر رکن ہے، جس کے فیصلے براہِ راست قطر، بحرین، کویت، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس دفاعی معاہدے کے بعد یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ کیا دیگر خلیجی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کریں گے یا نہیں؟ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب اس معاہدے کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے تو دیگر GCC ممالک بھی پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات میں اضافہ کر سکتے ہیں تاکہ اجتماعی سلامتی کا ایک نیا ماڈل سامنے آئے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ محض دوطرفہ تعاون نہیں بلکہ خطے میں اجتماعی سلامتی کے نئے رجحان کا آغاز ہے۔ ان کے مطابق مستقبل میں خلیجی ممالک کو بھی شامل کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے تاکہ پورا خطہ بیرونی خطرات کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور متحد ہو۔ اس بیان نے واضح کر دیا کہ پاکستان صرف سعودی عرب کا اتحادی نہیں بلکہ پورے خلیج کے لیے ایک ممکنہ شراکت دار بن سکتا ہے۔
اس معاہدے پر خلیجی ممالک کے ردِعمل مختلف رہے۔ بعض ریاستوں نے اسے خوش آئند قرار دیا کیونکہ وہ اسے خطے کے لیے ایک مضبوط حفاظتی حصار سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے پاس مالی وسائل ہیں اور پاکستان کے پاس دفاعی اور عسکری صلاحیت، دونوں کا امتزاج خطے کی سلامتی کو مضبوط کر سکتا ہے۔ تاہم کچھ حلقے محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے کے نتیجے میں علاقائی اسلحہ کی دوڑ یا نئی کشیدگیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔
عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کو گہری نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل اسے اپنے مفادات کے تناظر میں پرکھ رہے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ معاہدہ اس لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مزید مستحکم ہونا جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ دونوں خطوں میں بھارتی مفادات کو متاثر کر سکتا ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ خدشہ اہم ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ذریعے اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کر کے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن تبدیل کر سکتا ہے۔
امریکہ اور یورپی طاقتیں اس معاہدے کو محتاط نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اتحاد خطے کے موجودہ سیکورٹی نظام پر کیا اثر ڈالے گا، خاص طور پر اس وقت جب واشنگٹن خلیجی خطے میں اپنی عسکری موجودگی کم کر رہا ہے اور چین و روس جیسے ممالک وہاں اپنے اثرات بڑھا رہے ہیں۔
اس معاہدے کا ایک اہم اورحساس پہلو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے جڑا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کی ایٹمی صلاحیت صرف اپنی دفاعی ضروریات کے لیے ہے، لیکن بعض پاکستانی وزرا کے بیانات میں یہ تاثر ملا کہ سعودی عرب کو ایک طرح کی “ایٹمی چھتری” فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس خیال نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کی ہے کیونکہ یہ “Nuclear Non-Proliferation Treaty (NPT)” کے اصولوں کے برعکس سمجھا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی نظر میں فی الحال یہ زیادہ تر سیاسی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاکہ سعودی عرب کو ایک طاقتور اتحادی کی یقین دہانی کرائی جا سکے۔ عملی طور پر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سعودی عرب کے لیے براہِ راست استعمال نہیں ہو گی کیونکہ یہ عالمی قوانین اور سفارتی دباؤ کے باعث مشکل ہے۔ تاہم اس پہلو نے اس معاہدے کو عالمی میڈیا میں نمایاں کر دیا ہے۔
خلیجی تعاون کونسل کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاہدہ خطے کے لیے نئے مواقع اور چیلنجز دونوں کو سامنے لا سکتا ہے۔ ایک طرف یہ معاہدہ خلیجی ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی حکمتِ عملی اور قریبی تعاون کے لیے ایک محرک بن سکتا ہے۔ اگر اس موقع سے فائدہ اٹھایا گیا تو GCC ممالک اپنی اجتماعی سلامتی کو زیادہ مضبوط بنا سکتے ہیں اور بیرونی طاقتوں پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر اس معاہدے میں شفافیت اور مشاورت کی کمی رہی تو یہ خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات کو بھی بڑھا سکتا ہے۔ خاص طور پر قطر اور عمان جیسے ممالک، جو نسبتاً آزاد خارجہ پالیسی رکھتے ہیں، شاید سعودی عرب اور پاکستان کے قریبی اتحاد کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاہدے کو خلیجی خطے میں ایک جامع اور متوازن حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔
سعودی عرب اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ صرف دوطرفہ تعاون کا نام نہیں بلکہ یہ پورے خلیجی خطے کی سلامتی اور سیاسی سمت کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت اگر مربوط انداز میں آگے بڑھتی ہیں تو یہ اتحاد خطے کو ایک نئی طاقت کے محور میں بدل سکتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس معاہدے سے وابستہ عالمی خدشات اور خطے کے اندرونی اختلافات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آنے والے مہینوں اور برسوں میں یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ آیا یہ معاہدہ خلیجی اتحاد کو مضبوط بناتا ہے یا خطے میں نئی کشیدگیوں کا آغاز کرتا ہے۔
Leave a Reply