rki.news
(تحریر: احسن انصاری)
دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جنہوں نے وقت کا دھارا بدل دیا اور آنے والی نسلوں کے لیے نئے راستے متعین کیے۔ ان واقعات میں سے ایک حالیہ اعلان بھی ہے جس میں برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اعلان محض ایک سفارتی کارروائی نہیں بلکہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس نے عالمی سیاست کو نئی جلا بخشی ہے ہے۔ فلسطین کے عوام جو دہائیوں سے اپنی آزادی اور ریاست کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، ان کے لیے یہ خبر یقیناً کسی امید کی کرن سے کم نہیں۔
فلسطین کا مسئلہ محض ایک خطے کا سیاسی تنازع نہیں، بلکہ یہ انصاف، انسانی حقوق اور عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینی عوام نہ صرف اپنی سرزمین کے حق سے محروم ہیں بلکہ ہر روز ظلم، جبر، بربادی اور نقل مکانی جیسے المیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف 2023 اور 2024 کی جھڑپوں میں غزہ اور مغربی کنارے میں 55 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتیں کی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، اس عرصے میں 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے اور تقریباً 17 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ ہزاروں گھر، اسکول، اسپتال اور مساجد ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ اعداد و شمار صرف دو برس کے ہیں، جبکہ پچھلی سات دہائیوں میں اس طرح کے بے شمار سانحات فلسطینی عوام پر گزر چکے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ انسانی اقدار کی بحالی کا عملی اظہار ہے۔ یہ جملہ دراصل مغرب کے دیرینہ رویے پر بھی ایک تنقید ہے، جہاں اکثر انسانی حقوق کے نعروں کو سیاسی مفادات کے تابع کر دیا جاتا رہا ہے۔ اگر واقعی برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک اپنے اعلان پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہوگا جس میں فلسطینی عوام کے زخم بھرنے کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی برادری کی شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ ان کا مؤقف یہ بھی تھا کہ اسرائیل میں جاری انتخابی اصلاحات اور جمہوری عمل اس حوالے سے ایک نیا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ گویا اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک دو ریاستی حل کی طرف بڑھیں۔ یہ سوچ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دنیا اب طاقت کے استعمال کے بجائے سیاسی حل کو زیادہ ترجیح دینے لگی ہے۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی تقریر میں فلسطینی عوام کی قربانیوں اور مشکلات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام دہائیوں سے جبر و استحصال کا شکار ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ ٹروڈو کا یہ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ مغربی دنیا میں ایک نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے جو فلسطینی عوام کو محض تنازع کا حصہ نہیں بلکہ انصاف کے مستحق فریق کے طور پر دیکھتی ہے۔
یہ تمام بیانات اور اعلانات اپنی جگہ اہم ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلے صرف الفاظ کی حد تک محدود رہیں گے یا ان کے نتیجے میں کوئی عملی تبدیلی بھی آئے گی؟ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر کئی بار عالمی سطح پر بڑے بڑے وعدے کیے گئے، قراردادیں منظور ہوئیں اور مظلوم عوام کے حق میں آوازیں بلند کی گئیں، لیکن جب عمل کا وقت آیا تو سیاسی مصلحتیں اور معاشی مفادات آڑے آ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج فلسطینی عوام کے دلوں میں امید کے ساتھ ساتھ ایک خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں یہ اعلان بھی محض سفارتی بیانات کی قطار میں شامل نہ ہو جائے۔
اس اعلان کا ایک اور پہلو اسرائیل پر دباؤ ہے۔ تین بڑے ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنا دراصل اسرائیل کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اب دنیا مزید خاموش تماشائی نہیں بنے گی۔ اگر اسرائیل دو ریاستی حل پر راضی نہیں ہوتا تو عالمی سطح پر اس کی پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔ یہ ایک ایسا دباؤ ہے جو شاید اسرائیلی پالیسی میں کسی حد تک لچک پیدا کر سکے۔ تاہم یہ سب کچھ وقت ہی ثابت کرے گا۔
فلسطینی عوام کی جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے قربانیوں، شہادتوں اور آہوں کی۔ بچے اپنے بچپن سے محروم ہوئے، مائیں اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاتی رہیں، اور نوجوان اپنے خواب دفن کرتے رہے۔ دنیا کے نقشے پر فلسطین کا مسئلہ دراصل ایک آئینہ ہے جو عالمی ضمیر کو بار بار جھنجھوڑتا ہے۔ برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے حالیہ فیصلے نے اگرچہ ایک نئی امید جگائی ہے، مگر اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔
اس وقت عالمی برادری کے لیے سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ اس اعلان کو عملی اقدامات میں کیسے بدلا جائے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا ایک پہلا قدم ہے، مگر اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق فراہم کیے جائیں۔ ترقیاتی منصوبے، تعلیمی سہولیات، صحت کے ادارے اور روزگار کے مواقع تبھی ممکن ہوں گے جب عالمی طاقتیں اپنی عملی ذمہ داریوں کو تسلیم کریں گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف تین ممالک کا اعلان کافی نہیں۔ جب تک بڑی طاقتیں جیسے امریکہ اور یورپی یونین کے اہم ممالک فلسطین کو تسلیم نہیں کرتے، تب تک یہ فیصلہ اپنی مکمل معنویت حاصل نہیں کر سکے گا۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اگر برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک اس سلسلے کا آغاز کر سکتے ہیں تو ممکن ہے کہ دیگر ممالک بھی جلد اس قافلے میں شامل ہوں۔
فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا یہ اعلان تاریخ کے ایک نئے دور کی علامت ہے۔ یہ فیصلہ ایک خواب کی تعبیر کی طرف پہلا قدم ہے۔ لیکن یاد رہے، خواب اس وقت حقیقت میں بدلتے ہیں جب انہیں مسلسل جدوجہد اور عملی اقدامات کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ اپنی منزل سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے اس سفر میں ان کے ساتھ کھڑی ہو اور اس خواب کو حقیقت کا روپ دے۔
Leave a Reply