rki.news
تحریر: طارق محمود
فاونڈر: ایکسپرٹ میرج بیورو انٹرنیشنل
ازدواجی زندگی کے مسائل پر میرے سامنے جو کہانیاں کھلتی ہیں وہ اکثر ایک ہی نکتے پر سمٹ آتی ہیں۔ برسوں کے مشاہدے اور تجربے نے یہ سکھایا ہے کہ عورت کے ذہن میں شادی کو لے کر سب سے بڑا سوال یہی ہوتا ہے کہ تابعداری کیا ہے؟ کیا یہ جبر ہے یا یہ شادی کی اصل روح ہے؟ میں نے اپنی نشستوں میں بارہا دیکھا ہے کہ طلاق یافتہ اور خلع کی خواہش رکھنے والی خواتین کے دل میں یہ الجھن بسی ہوتی ہے اور یہی الجھن گھروں کو بربادی کے دہانے تک لے جاتی ہے۔
ایک بار میرے پاس مریم نامی خاتون آئیں۔ شکایت یہ تھی کہ شوہر ہر فیصلے میں اپنی رائے دیتا ہے، اپنی مرضی کا اظہار کرتا ہے اور یہ بات انہیں ناگوار گزرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ وہ رہنما ہوں مگر ہر بات میں اپنی رائے کیوں مسلط کرتے ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ انہیں رہنمائی نہیں چاہیے تھی، ایک ایسا شوہر چاہیے تھا جو بظاہر قائد ہو مگر حقیقت میں ان کے حکم پر چلے۔ یہ شادی نہیں، ایک تماشا تھا۔ اسی طرح عائشہ آئی۔ اس نے کہا کہ شوہر کے ہر حکم پر سوال اٹھانا اُس کا حق ہے کیونکہ وہ آزادی چاہتی ہے۔ مگر جب میں نے ان کے جھگڑوں کی تفصیل سنی تو صاف ظاہر ہوا کہ یہ آزادی نہیں، بغاوت تھی۔ وہ شوہر کو قائد ماننے پر تیار نہ تھیں۔ اور میں نے ایک بار پھر وہی حقیقت دہرائی کہ دو قیادتیں ایک گھر میں نہیں چل سکتیں۔ ہر وہ چیز جس کے دو سر ہوں وہ یا تو عفریت بن جاتی ہے یا بکھر کر رہ جاتی ہے۔
میں نے زینب کو بھی دیکھا جو شوہر کی کمائی، تحفظ اور نام کو فخر سے اپنا حق سمجھتی تھیں، مگر جب بات نظم و ضبط اور ذمہ داری کی آئی تو وہ کہنے لگیں کہ یہ جبر ہے۔ دراصل وہ تاج چاہتی تھیں مگر بادشاہت نہیں۔ خطاب چاہتی تھیں مگر اعتماد نہیں۔ تحفظ چاہتی تھیں مگر سپردگی نہیں۔ یہ رویہ غرور کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میری مشاورت میں ایک جملہ بارہا سننے میں آتا ہے: اگر میں نے شوہر کی پیروی کی تو اپنی پہچان کھو دوں گی۔ اور میں ہر بار کہتا ہوں: نہیں، اگر تم نے پیروی نہ کی تو اپنی شادی ضرور کھو دو گی۔ تابعداری عورت کو کمزور نہیں کرتی بلکہ اس کا مقام بلند کرتی ہے۔ غرور اس حقیقت کو ڈھانپ دیتا ہے مگر انجام پھر بھی سامنے آ کر رہتا ہے۔
کئی بار میں نے دیکھا کہ مرد اپنی آخری حد تک برداشت کرتے ہیں۔ خاموش ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی خواہشات اور قیادت چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر جب عورت تابعداری کو جبر سمجھ کر بغاوت کو اپنا معمول بنا لے تو وہ گھر رفتہ رفتہ مٹ جاتا ہے۔ میں نے ایسے کئی مرد دیکھے ہیں جو تھکے ہارے میرے دفتر سے نکلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سب کر کے دیکھ لیا مگر اب یہ رشتہ بوجھ بن چکا ہے۔ اس تجربے کے بعد مجھے کہنا پڑتا ہے کہ شادی اُس عورت کے لیے نہیں جو تابعداری کو غلامی سمجھے۔ تابعداری دراصل ڈھال ہے، اعتماد ہے، ایک نظم ہے۔ یہ محبت کو مضبوط کرتا ہے اور گھر کو ورثہ بناتا ہے۔ جو عورت اس حقیقت کو نہ سمجھے وہ دراصل شادی نہیں چاہتی بلکہ طاقت کی کشمکش چاہتی ہے۔ اور طاقت کی یہ جنگ کبھی گھر نہیں بساتا، صرف اجاڑ دیتی ہے۔
میں نے مردوں کو یہی مشورہ دیا ہے کہ اگر عورت بار بار بغاوت کو اپنا شعار بنا لے، ہر دن شوہر کو تھکائے، ہر رات اس کی توانائی کھا جائے اور اصلاح کی کوئی امید باقی نہ رہے تو دیر نہ کیجیے۔ اپنی جان بچائیے۔ کیونکہ ایک باغی عورت کو سہنے میں جتنا وقت لگے گا اتنا ہی نقصان بڑھتا جائے گا۔ لیکن عورتوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ تابعداری کو غلامی نہ سمجھیں بلکہ اسے اعتماد کی ایک صورت جانیں۔ یہ قربانی نہیں بلکہ تعلق کا حسن ہے۔ اگر بیوی اپنے شوہر کی قیادت کو دل سے تسلیم کر لے تو وہ نہ صرف اپنی ازدواجی زندگی کو سکون سے بھر دیتی ہے بلکہ اپنی شخصیت کو بھی وقار بخشتی ہے۔ تابعداری میں عزت چھپی ہے، محبت چھپی ہے اور گھر کی سلامتی چھپی ہے۔ یہ وہ راز ہے جو جس نے پا لیا، اس نے اپنی شادی کو ایک نعمت بنا لیا۔
اقتباس
“تابعداری غلامی نہیں، اعتماد اور تحفظ ہے۔ بغاوت اگر معمول بن جائے تو رشتہ بوجھ بن جاتا ہے اور گھر اجڑ جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی کی اصل روح قیادت کو ماننے اور اعتماد کے ساتھ ساتھ چلنے میں ہے۔”
مصنف کا تعارف
مصنف میرج کنسلٹنٹ ہیں اور برسوں سے ازدواجی مسائل کے حل اور رہنمائی کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
Leave a Reply