Today ePaper
Rahbar e Kisan International

شہباز احمد سابق کپتان اور ہاکی کے میراڈونا

Articles , Snippets , / Thursday, September 25th, 2025

rki.news

تحریر احسن انصاری

شہباز احمد، جنہیں دنیا ہاکی کے مارادونا کے نام سے یاد کرتی ہے، پاکستان کے سب سے بڑے کھلاڑیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یکم ستمبر 1968 کو فیصل آباد میں پیدا ہونے والے شہباز احمد نے نہایت سادہ زندگی سے آغاز کیا لیکن اپنی محنت اور کمال کی صلاحیتوں سے ہاکی کی دنیا کو فتح کر لیا۔ ان کا کیریئر غیر معمولی ٹیلنٹ، سخت محنت اور لگن کی ایک شاندار داستان ہے جس نے پاکستان کو بے شمار اعزازات دیے اور آنے والی نسلوں کو متاثر کیا۔

جب وہ 1986 میں قومی ٹیم کا حصہ بنے تو فوراً ہی سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ فارورڈ اور لیفٹ اِن کے طور پر کھیلتے ہوئے شہباز احمد کو ان کے شاندار ڈاج، لاجواب ڈرِبلنگ اور بجلی کی سی تیزی نے عالمی شہرت بخشی۔ ہاکی اسٹک پر ان کا کنٹرول اور کھیل کا انداز ایسا تھا کہ مدِ مقابل کھلاڑی بے بس ہو جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے شائقین کے دل جیتنے میں کامیاب رہے۔

شہباز احمد کی قیادت نے پاکستان ہاکی کو ایک سنہری دور عطا کیا۔ 1994 میں ان کی کپتانی میں پاکستان نے ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ سڈنی میں جیتا اور گمشدہ عظمت دوبارہ حاصل کی۔ اسی سال لاہور میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی بھی پاکستان کے نام ہوئی۔ یہ دونوں کامیابیاں پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ کے سنہری باب ہیں۔

ان کی ذاتی کامیابیاں بھی تاریخ ساز ہیں۔ شہباز احمد وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہیں دو مسلسل ورلڈ کپ مقابلوں میں — 1990 لاہور اور 1994 سڈنی — میں بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔ یہ اعزاز ان کی غیر معمولی مہارت اور تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔

اولمپکس میں بھی ان کی خدمات پاکستان کے لیے قابلِ فخر رہیں۔ 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں پاکستان نے ان کی قیادت میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ اگرچہ ٹیم فائنل میں نہ پہنچ سکی لیکن شہباز احمد کا کھیل سب کے دلوں کو بھا گیا۔ اپنے کیریئر میں انہوں نے 304 سے زیادہ میچز کھیلے اور 100 سے زائد گولز اسکور کیے، جو ایک فارورڈ کے لیے شاندار کارنامہ ہے۔

علاقائی سطح پر بھی ان کی فتوحات یادگار رہیں۔ انہوں نے 1989 میں نئی دہلی میں ایشیا کپ اور 1990 بیجنگ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کامیابیوں نے نہ صرف پاکستان کی برتری کو قائم رکھا بلکہ شہباز احمد کو ایشیائی ہاکی کا ہیرو بنا دیا۔

ان کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں اعلیٰ اعزازات سے نوازا، جن میں پرائڈ آف پرفارمنس 1992 اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ یہ اعزازات نہ صرف ان کی کھیلوں کی کامیابیوں کا اعتراف تھے بلکہ اس بات کی گواہی بھی تھے کہ انہوں نے ملک و قوم کا وقار بلند کیا۔

کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی شہباز احمد نے ہاکی کو نہیں چھوڑا۔ 2015 میں انہیں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے کھیل کی بحالی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اگرچہ ان کا انتظامی دور ان کے کھیلنے کے دنوں کی طرح شاندار نہ رہا لیکن یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد ہمیشہ ہاکی کی خدمت رہا۔

شہباز احمد کی انفرادیت صرف ان کی کامیابیوں میں نہیں بلکہ کھیل کے انداز میں بھی تھی۔ شائقین آج بھی 1994 ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے خلاف ان کی شاندار دوڑ کو یاد کرتے ہیں، جو ہاکی کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش لمحہ ہے۔ ان کی تیز رفتاری اور جادوئی ڈاج نے انہیں “مین وِد الیکٹرک ہیلز” کا خطاب دلوایا۔ ان کا کھیل صرف مؤثر ہی نہیں بلکہ دیدنی بھی تھا۔

آج شہباز احمد پاکستان ہاکی کے دیگر عظیم کھلاڑیوں جیسے اصلاح الدین، سمیع اللہ اور حسن سردار کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ان کا مقام منفرد ہے۔ انہوں نے صرف کامیابیاں ہی نہیں دیں بلکہ اس وقت امید بھی جگائی جب قوم اپنی ہاکی کی عظمتِ رفتہ کو ترستی تھی۔ ان کا نام آج بھی نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔

شہباز احمد کی کہانی صرف ایک کھیل کی داستان نہیں بلکہ قومی فخر کی کہانی ہے۔ فیصل آباد کے ایک عام لڑکے سے لے کر ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان تک ان کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیلنٹ اور عزم مل کر کمال پیدا کرتے ہیں۔ ان کا نام ہمیشہ پاکستان اور دنیا کی ہاکی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International