Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پھر تمہیں عادت ہو جائے گی

Articles , Snippets , / Sunday, September 28th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
مہرو سوچ رہی تھی کہ پرویز کے ساتھ جاے یا نہ جاے، بات کچھ خاص نہ تھی لیکن اگر خاص نہ تھی تو عام بھی نہ تھی اگر مہرو، ماں جی کے پند و نصایح پہ کان دھرتی تو اسے بالکل بھی پرویز کی بات پہ کان نہ دھرنا چاہیے تھا، بس سنی ان سنی کرتی اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتی مگر مہرو کے دماغ میں بھی کوئی کیڑا تھا جو اسے الٹے سیدھے کاموں پہ اکساتا رہتا تھا،اسے پرویز نے گھر کے اندر آ کے کہا تھا کہ باہر اس کی کوی کلاس فیلو اسے بلا رہی ہے، شاید اسے کوی ضروری کام تھا، اب بھلا کوی سوچے کہ اگر مہرو کی کسی کلاس فیلو کو اس سے کوئی کام تھا بھی تو وہ اسے اندر لے کر کیوں نہ آیا، خیر مہرو منہ اٹھا کے پرویز کے پیچھے پیچھے ایسے چل پڑی، جیسے کوی نیند میں چلتا ہے، اور ہوش اسے اس وقت آی جب پرویز اسے ملازمین کے کوارٹروں کے پیچھے چارا کاٹنے والے ٹوکے سے بھی آگے لے پہنچا، اچانک مہرو کے ہوش ٹھکانے آے، وہ یکدم نیند سے جاگی، اس نے سر اٹھا کے نیلے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر گردن موڑ کے پرویز کی خون رنگ شیطانی آنکھوں میں، اس کے رونگٹے کھڑے ہو گیے، لیکن چونکہ ذہنی طور پر بڑی ہوشیار تھی، معاملے کی سنگینی اور نزاکت دونوں کو ہی بھانپ گءی اور پرویز کے بازو سے ہوتی ہوی ناک کی سیدھ میں سیدھی پرویز کے کوارٹر کے سامنے جا رکی، پرویز ایک خانسامے کا بیٹا تھا جو اس کالونی کے تمام آفیسرز کی بیگمات کو طرح طرح کے مزے دار کھانے بنا کے دیتا تھا، خیر خانسامے کا بیٹا تو کہیں اونچی پروازوں پہ لوگوں کی. بیٹیوں کی عزت خراب کرنے کا، کوی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا، تو مہرو نے پھولی سانسوں اور لال چہرے کے ساتھ ماسی کو اس کے لاڈلے بیٹے پرویز کے کرتوت بتاے اور یہ جا وہ جا اپنے سکول کے تمام اسباق کی دوہرای میں لگ گءی، اسے ہی کہتے ہیں خس کم، جہاں پاک. مہرو عقلمند گیارہ سالہ لڑکی جسے اس کی بڑی بوڑھیوں نے اس طرح کے لونڈوں لپاڑوں کی مشکوک حرکات و سکنات و عادات سے بر وقت آگاہ کر رکھا تھا تو وہ اس آورا گرد لڑکے کی آنکھوں میں نہ صرف دھول جھونک آی بلکہ اس کی ماں کو بھی اس کے ناپاک عزائم سے آگاہ کر آی.
دوسری طرف نبیہہ ایک آٹھ سالہ بچی جو اپنے چار بہن بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ ایک دو کمروں کے کراے کے فلیٹ میں ہنسی خوشی رہ رہی تھی، زندگی اس پہ مہربان تھی، وہ ہنستے مسکراتے سکول جاتی اور ہنستے مسکراتے ہی سکول سے واپس لوٹ آتی، وہ اس کی زندگی کا پہلا سیاہ دیہاڑا تھا، جب اس کی ماں کے ایک دور پار کے رشتہ دار کو شہر میں ملازمت ملی تو وہ مستقل طور پر ان کے ہاں شفٹ ہو گئے،چلو وہ بھی ٹھیک تھا لیکن جو انھوں نے آتے ہی ننھی نبیہہ کے ساتھ کیا نہ ہی وہ احاطہ تحریر میں لایا جا سکتا ہے نہ ہی وہ کسی شریف انسان کا لچھن ہو سکتا تھا، نبیہہ کے بازوں، ٹانگوں اور پورے جسم کو نیلو نیل کر دیا گیا، اسے دانتوں سے کاٹا اور بھنبھوڑا گیا، اسے انکار کرنے پہ بے دردی پیٹا گیا، اس سے زور زبردستی کر کے زنا بالجبر کیا گیا اور درد اور زخموں سے کراہتی ہوی بچی کو یہ کہہ کر آنے والی رات کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا گیا کہ کسی کو بتانا کچھ نہیں کل تمیں، نءی فراک، چاکلیٹس اور بہت ساری کتابیں بھی ملیں گی. اور ایک آٹھ سالہ بچی کو اس بات کا لالی پاپ دے کر شانت رکھنے کی کوشش کی گءی کہ ڈرنے کی کوی بات نہیں آہستہ آہستہ تمہارا جسم اس بات کا عادی ہو جاے گا، ارے یہ کوی مزے دار کھانا ہے، کوی مٹھای ہے یا کوی جوس ہے جس کا بدن آہستہ آہستہ عادی ہو جاے گا، ہمیں نہ صرف اپنے اردگرد کے ماحول میں ان جنسی درندوں کو پہچاننا ہو گا بلکہ ان جنسی درندوں کو ان کے گناہ کے مطابق سزا دلوَا کے انھیں کیفرکردار تک بھی پہنچانا ہو گا، ہمیں اپنے بچوں کو برے اور اچھے چھوے جانے کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرنی ہوں گی تاکہ بچوں اور خاص طور پر بچیوں کو ان نام نہاد رشتہ داروں، ملازموں اور ڈرائیوروں کے جنسی عتاب سے بچایا جا سکے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International