rki.news
راجا ناصر محمود ۔ قطر
آج کے کالم کا عنوان The Child is Father of the Man انگریزی کے مشہور شاعر William Wordsworth کی نظم My Heart Leaps Up سے لیا گیا ہے ۔ ’بچہ انسان کا باپ ہے‘ بظاہر ایک بے تُکی اور نامعقول بات لگتی ہے لیکن حقیقت میں اس کے اندر گہری دانائی اور حکمت پوشیدہ ہے کیونکہ یہ ایک Paradox ہے۔ اِس میں شاعر یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ بچپن کے خیالات ، عادات اور تجربات ہی مستقبل کے انسان کی شخصیت اور کردار کو جنم دیتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ آنے والے کل کا انسان، آج کے بچے سے بنتا ہے۔ انسان جو کچھ اپنے بچپن میں دیکھتا اور سیکھتا ہے، وہی اس کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ اِس حقیقت سے انسان کے بچپن کے دور کی اہمیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ کسی شخص کی کامیابیوں یا ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے بچپن کے حالات و واقعات اور ماحول کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اُس کے موجودہ حالات و واقعات کو ہی اُس کی اچھی یا بُری کارکردگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف قسم کے جرائم، عدم برداشت ، جھوٹ ، لوٹ کھسوٹ اور دوسری کئ معاشرتی نا ہمواریوں کی بنیادی وجہ نوجوان طبقے کی بچپن میں ناقص رہنمائی ، نامناسب دیکھ بھال اور واجبی تعلیم و تربیت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ یونیسف کے مطابق، دنیا میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں 5 سے 16 سال تک کی عمر کے تقریباً 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے۔ ملک میں 32 فیصد مرد اور 48 فیصد خواتین اب بھی ان پڑھ ہیں۔ یہ مسئلہ صرف اسکول نہ جانے والے بچوں تک محدود نہیں۔ بدقسمتی سے بڑی حد تک ہمارا تعلیمی ڈھانچہ محض رسمی تعلیم تک محدود ہے۔ اس لیے پڑھے لکھے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی معاشرے میں کوئی مثبت اور مثالی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ کمزور کردار اور غیر مؤثر تربیت کی وجہ سے یہ افراد اکثر مختلف برائیوں اور جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک مایوس کن اور خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت، اعلیٰ رہنمائی اور مناسب دیکھ بھال کو یقینی بنایا جائے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین اوراساتذہ کا کردار بنیادی ہے ۔ دوست احباب ، رشتےدار اور اِرد گرد کا ماحول بھی اُن کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ۔ بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں ۔
1- بچے ابتدا میں بڑوں کی باتیں، اندازِ گفتگو اور حرکات و سکنات نقل کر کے زبان، عادات اور رویّے سیکھتے ہیں۔ اس لیے بڑےبچوں کے سامنے ہمیشہ اعلیٰ قول و فعل اور مثالی کردار پیش کریں۔بچوں میں عزتِ نفس ، شرافت، محبت،محنت، اعتماد، ایمانداری،سچائی، بہادری جیسی اعلی صفات پیدا کرنے کے لیے والدین اپنی ذات کا نمونہ پیش کریں اور اِن اقدار کو اُن کی شخصیت کا حصہ بنانے کے لیے اپنی عملی زندگی سے مثالیں دینا ایک معمول بنا لیں تاکہ بچے آپ پر فخر اوراعتماد کریں۔
2- والدین عموماً بچوں کے فارغ وقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں حالانکہ فارغ وقت میں اُن پر نظر رکھنا اتنا ہی اہم اور لازمی ہے جتنا اُن کی پڑھائی کے دوران۔ یاد رکھیں بچے نے گھر کا کام یا پڑھائی کرنے کے دوران خراب نہیں ہونا بلکہ فارغ وقت میں ہی کسی ناپسندیدہ عمل یا منفی سرگرمی کا شکار ہونا ہے ۔ اس لیے فارغ اوقات میں بھی بچوں کی بھرپور نگرانی کریں اور اس وقت کومثبت انداز میں گزارنے کے لیے اُنھیں بہترین وسائل مہیا کریں تاکہ وہ اِس وقت سے بھرپور لطف اُٹھا کر تازہ دم ہو جائیں۔
3- بچوں کی جسمانی نشوونما اور تفریح کے لیے ضروری ہے کہ پانچ چھ سال کی عمر سے ہی انہیں کسی کھیل کی باقاعدہ عادت ڈالی جائے۔ اگرممکن ہو تو والد خود بھی بچوں کے ساتھ کھیلیں ۔ نیز وہ روزانہ پندرہ بیس منٹ بچوں سے مختلف موضوعات ، اقدار و روایات اور حالاتِ حاضرہ وغیرہ پر بات کریں۔
4- کم پڑھے لکھے والدین اوروہ میاں بیوی جو دونوں کام کرتے ہیں ، اُن کے لے بچوں کی مناسب دیکھ بھال اور کردار سازی ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن اُنھیں اپنی اِس ذمہ داری کو اپنے روزمرہ کے معمولات میں سرِ فہرست رکھ کر اَس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔
5- کبھی کبھار بڑوں کو بھی اپنے بچپن میں جھانک کر اُس سنہری دور کی یادیں تازہ کرنی چاہیے اور قدرت کی عطا کردہ معصومیت، شرافت، پاکیزگی، سخاوت و دریا دلی، راست گوئی، معاف کرنے میں جلد بازی، دوستوں سے بے تکلفی اور بات بات پر قہقہے لگانے جیسی اعلی صفات و عادات کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہئے۔
Leave a Reply