rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
بقول اقبالؒ:-
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی٬نہ محبت٬نہ معرفت٬نہ نگاہ!
علامہ اقبالؒ شاعر مشرق٬حکیم الامت کے شعر کے تناظر میں ماہرین تعلیم کے مطابق ہمارا نظام تعلیم روحانیت سے خالی ہے۔اس نظام تعلیم میں وسیع پیمانے پر اصلاح کی ضرورت ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ معماران قوم میں روحانیت کیسے پیدا ہو؟اس ضمن میں بغور جائزہ لیا جاۓ تو نصاب تعلیم٬اساتذہ اور طلبہ کے مابین ایک ربط اور تعلق بہت زیادہ ضروری ہے۔استاد چونکہ ایک روحانی باپ کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کا کردار بھی بہت اہم تصور ہوتا ہے۔تاہم نظام تعلیم کے اثرات بھی پڑتے ہیں۔ماہرین تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ بہتر اصلاحات اور تعلیم کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور حالات حاضرہ کے مطابق نصاب تعلیم تیار کریں ۔بہتر تعلیم ہی قوم و ملت کی اساس ہوتی ہے۔وہی لارڈ میکالے کا نظام تعلیم اگر نوجوان نسل کو پڑھایا جاۓ تو نتائج بہتر آنے کی توقع محض دیوانے کا خواب ہے۔تعلیم کے عمل میں استاد بحیثیت روحانی باپ اور نگران بنیاد تصور ہوتا ہے۔تاہم استاد کو عزت اور احترام دینا بھی تو سماج کے لیے ضروری ہے۔طلبہ کو بھی چاہیے کہ علم کی دولت دامن میں سمیٹنے کے لیے نیت درست رکھیں اور استاد کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں۔کیونکہ ”ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں“
اسلامی رو سے اخلاص کے ساتھ اللہ کریم کی رضا اور آخرت سدھارنے کے لیے علم دین حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔محض دنیوی علوم کے حاصل کرنے سے قوم کے معماران اور افراد معاشرہ میں روحانیت بیدار نہیں ہوتی۔آپؐ کا فرمان بھی ہے”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے“(صحیح بخاری)
ماہرین تعلیم کا نظریہ بھی تو یہی ہے کہ بامقصد علم ہی سے مقام شوق اور انسانیت کے دروازے تک پہنچنے کا رتبہ ملتا ہے۔اس ضمن میں طلبہ کی کچھ بھاری ذمہ داریاں بھی ہیں۔اخلاص نیت کے ساتھ ساتھ مذموم افعال اور اخلاق رذیلہ سے اجتناب کریں۔ان کے مدنظر ایک ہی بات رہے۔بقول اقبالؒ:-
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خود داری اورثابت قدمی سے نہ صرف معماران قوم بہتر مستقبل تلاش کر پاتے ہیں بلکہ سوچ اور فکر کے آبگینوں سے زندگی تبدیل بھی کر پاتے ہیں۔موجودہ پر فتن عہد میں سوشل میڈیا کا منفی طوفان ایک خطرناک چیلنج سے کم نہیں۔اس نازک صورتحال میں استاد ہی تومرکزی کردار ادا کرتا ہے۔بقول شاعر:-
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی (اقبالؒ)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا”علم حاصل کرو اور علم کے لیے متانت اور وقار پیدا کرو جس سے تعلیم حاصل کرو اس سے خاکساری برتو“(سنن ابن ماجہ)
اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اساتذہ کا احترام٬دینی کتب کا احترام٬ہم جماعتوں اور رفقاۓ کار کے ساتھ حسنِ سلوک اور ہمدردی ضروری ہوتی ہے۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں”کہ جس علم سے تکبر پیدا ہو وہ علم جہل سے بھی زیادہ بدتر ہے“
یہ بات تو مسلمہ ہے کہ علم حاصل کرنے میں محنت کا عنصر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔وقت تو ایک بہتا دریا ہے۔جو لمحات گزر گئے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آ سکتے اس لیے وقت کی پابندی ضروری ہے۔عہد حاضر کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ نوجوان نسل کے کردار میں وہ جھلک نظر نہیں آتی جو وقت کا تقاضا ہے۔اس لیے قوم کے معماران کو مثبت اور بامقصد تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔تاکہ تعلیم کے حقیقی مقاصد کی تکمیل ممکن ہو پاۓ۔وہ قوم اور ملک کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتا جس کے قومی اثاثہ کی سوچ جامع اور نظریات میں پختگی نہ ہو۔یہ تو استاد جیسی مہربان اور شفیق ہستی کا کمال ہوتا ہے کہ فرد کو فرش کی پستیوں سے نکال کر عرش کی بلندیوں پر فاٸز کرتے اپنا مقدس فرض پورا کرتا ہے۔اخلاق کے جواہر بھی تو اچھے نظام تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق قوم کے سرمایہ کی بہتر تعلیم و تربیت ہی کامیابی کی کلید ہے۔نظام تعلیم کو بہتر بنانے اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ٹھوس تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے۔
Leave a Reply