تازہ ترین / Latest
  Monday, December 23rd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

رشتہ دار (طنزومزاح)

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, April 4th, 2024

رشتہ دارآپ کے وہ ہمدرد ہیں جنہیں ماسوا درد دینے کے اور کوئی کام نہیں آتا۔ان کے شمائل و محاسن کی اگر بات کریں تو تاعمر آپ کو پتہ نہیں چلنے دیتے کہ خیر خواہ ہیں یا خوامخواہ۔اگر اس سے بھی سہل تعریف پیش کروں تو رشتہ دار، ایسے ملنے والے جو آپ کے گھر آکر مشورہ دیں کہ اپنی بیٹی کی شادی کردیں ”ساڈا نچن نوں دل کردا اے“تو سمجھ جائیں کہ آپ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ویسے جو حالات چل رہے ہیں گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے رشتہ داروں کو بندہ کہاں تک چلائے۔میں تو اکثر یہ کہتا ہوں کہ جب بھی رشتہ دار آئیں انہیں چلتا ہی کریں تو بہتر ہے۔میرے ایک دوست نے یہ ”گُر“سکھا کر مجھ پر یقینا احسان کیا ہے اور وہی بات آپ کے گوش گزار کر کے میں اپنے قارئین پہ احسان کررہا ہوں کہ اس کے گھر میں کبھی رشتہ دار تو کیا مہمان بھی نہیں آتے۔پوچھا تو مسکراتے ہوئے جواب ملا کہ ہم مہمان نوازی کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اگر کوئی کرے تو۔لہذا ہم مہمان کے آنے سے قبل ہی خود مہمان بن جاتے ہیں۔
عصرِ حاضر میں رشتہ داری دکانداری سے کسی طور کم نہیں ہے۔دکانداری بھی ایسی کہ جس میں گھاٹا ہی گھاٹا۔میرے ایک دوست نے شیخوں اور آرائیوں کے ہاں رشتہ داری کر رکھی ہے۔ایک بار عالم پریشانی میں دیکھا تو پوچھ بیٹھا کہ جناب کیا ہوا کچھ سہمے سہمے سے نظر آتے ہیں جناب،تو جناب نے جواب دیا کہ شیخ صاحب لینے آتے ہیں اور چوہدری صاحب لئے بنا جاتے نہیں۔میاں محمد بخش کی شاعری کو تب داد دینے کو دل چاہا کہ انہوں نے کیوں فرمایا تھا۔
آئی جان شکنجے اندر،جیویں وچ ویلن دے گنا
رشتہ دار دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سسرالئے اور دوسرے”منہ پھلائے“۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ پہچان کیسے ہو،کیونکہ وہ رشتہ دار ہی کیا جو شادی بیاہ کی رسم میں منہ نہ پھلائے اور وہ یار ہی کیا جو آپ کی”ٹپ ٹاپ“دیکھ کر منہ نہ پھلائے۔گویا دونوں ہی عادات و خصائل میں ایک ہی ”فیملی“ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن حد فاصل جاننے کے لئے اپنے گھر میں کوئی فنگشن رکھیں اور چئیرمین کا لٹھا یا اللہ وسایا کی کرنڈی یا کمالیہ کا دیسی کپاہ کا کھدر پہن لیں،پھر دیکھئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیسے الگ الگ ہوتے ہیں۔یعنی جو دودھ کی طرح ابالے مارے سمجھ لیں منہ پھلائے رشتہ دار اور جو پانی پانی ہوں سسرالئے۔کچھ سسرالی خواتین تو یہ کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں کہ ”باجی چیک کرنا یہ وہی والا سوٹ نہیں جو شادی پہ ہم نے دیا تھا،ابھی تک سنبھال رکھا ہے۔حالانکہ یہ ”حادثہ“تیس سال قبل رونما ہوا تھا(شادی والا)۔اب سسرالیوں کو کون سمجھائے کہ لٹھا کپڑا ہوتا ہے حضرت نوح ؓ کی قوم کا کوئی فرد نہیں جو اتنی طویل عمر بھی ساتھ لایا ہو۔
زندگی میں جو احباب آپ کی ”منجھی“ٹھوکتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ نہیں کرتے مرنے کے بعد یہی لوگ مردے کی منجھی کی ”چولیں“ہلا ہلا کر روتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”سانوں ہن کون پچھے گااس گھر وچ“یعنی مستقبل کن محفوظ ہاتھوں میں دے کر جا رہے ہو۔
رشتہ دار لگائی بجھائی نہیں کرتے سیدھا آگ لگاتے ہیں۔آپ کے گھر میں ماچس یا لائٹر نہ بھی ہوں تو کسی قریبی رشتہ دار کو بلائیں وہ چند باتوں سے ہی آپ کا چولہا ”ساڑ کے سواہ“کر دے گا۔بعض رشتہ دار آگ نہیں بھی لگاتے،ایسے رشتہ دار،رشتہ دے کر آپ کو رشتہ داری کے قابل نہیں چھوڑتے۔لہذا رشتہ داروں میں رشتہ کرنے سے قبل سو بار سوچیں پھر بھی رشتہ ہو جائے تو رشتے داری کے مزے لیں۔میرے دوست کہتے ہیں کہ رشتہ دار فسادی نہیں ہوتے،فساد وہیں آجاتا ہے جہاں رشتہ دار اکٹھے ہوں۔گندا ساک تے پاپ کبھی اکٹھے نہیں ہوتے اور اگر یہ معجزہ رونما ہو جائے تو سمجھو رشتہ دار اکٹھے ہیں،ہم پاکستانی رشتے قبر کی دیواروں تک نبھاتے ہیں یورپین بس live in تک،اس کے بعد وہ اپنے گھر،آپ اپنے گھر اور بچہ کسی اور کے گھر۔
میں نے رشتوں پہ اعتبار کیا
اور پھر مجھ کو کھا گئے رشتے
ایام شباب میں شباب کو جو سب سے زیادہ متاثر کن اشتہار لگتا ہے وہ ہے”ضرورتِ رشتہ“رشتہ کے بعد تو یہی رشتہ ”متاثرین“میں شمار ہونے لگتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ خاموش پھوپھو اور معقول رشتہ قسمت والوں کو ملتا ہے،اگر آپ چاہتے ہیں کہ پھوپھو خاموش رہے اور رشتہ معقول ہو تو پھوپھو کی بیٹی سے رشتہ کر لیں پھر یا تو پھوپھو خاموش ہو جائے گی یا آپ ایسے چپ کی جیسے فالسے کا شربت پی رکھا ہو۔
‘آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اگر آپ رشتہ داروں کو ”دورے“پڑوانا چاہتے ہیں تو تلاش کر کر کے انہیں اپنی فرینڈ لسٹ سے ”ان فرینڈ“کر دیں پھر دیکھئے کس بھاؤ بکتی ہے۔ماحول کو اگر آپ خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور اگر گھر کا ماحول خوش گوار چاہتے ہیں تو رشتہ داروں سے دور رہیں۔دُور کے رشتہ داروں کو بہتر ہے کہ دُور سے سلام کریں وگرنہ شادی و مرگ کے موقع پر ایک ایک تقریب پندرہ بیس ہزار سے کم نہیں پڑے گی۔ذرا سوچئے کہ ساہیوال پنجاب میں رہنے والوں کا کوئی رشتہ دارکراچی میں مقیم ہے اور آپ ان کی تقریب شادی میں شمولیت کر کے اپنی ”جیبوں“کو ہلکا کرتے ہوئے واپس ساہیوال اپنے گھر میں قدم رنجا فرما ہوتے ہی آپ کے فون پر کال آئے کہ چچا جان جس بچے کی شادی تھی اس کی والدہ ماجدہ رات قضا الہی سے چل بسی ہے اور جنازہ کا اعلان آپ کی تشریف آوری پر کیا جائے گا تو پتہ ہے اس کا حل کیا ہے؟بہت آسان اور سادہ سا حل ہے کہ آپ یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیں کہ
”تسیں ساڈے ولوں تے اسیں تہاڈے ولوں مر گئے“۔
جو بھی ہو رشتے تو رشتے ہوتے ہیں چاہے خون کے ہوں یا دُور کے،انہیں اپنے خون سے آبیاری کرتے ہوئے نبھانے کی کوشش کریں اس سے پہلے کہ رشتے آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں،پھر ہاتھ ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ویسے بھی جو حالات چل رہے ہیں رشتے بچ سکتے ہیں یا پیسے۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔میرا مشورہ یہ ہے کہ پیسے بچا لیں رشتوں نے کہاں جانا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International