Today ePaper
Rahbar e Kisan International

جیت ہے تو ہار پہ واویلا کیوں؟

Articles , Snippets , / Sunday, October 5th, 2025

rki.news

کالم نگار: نواز ساجد نواز

انسانی نفسیات میں ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کامیابی کا طلبگار رہتا ہے اور ناکامی کو برداشت نہیں کر پاتا۔ جیت کی خوشی انسان کے اندر اعتماد، جوش اور حوصلہ پیدا کرتی ہے لیکن ہار کا تجربہ اکثر کڑوا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ہار کو قبول کرنے کے بجائے اس پر واویلا کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا کھیل جیت اور ہار کے بغیر نامکمل ہے۔ اگر ہر وقت جیت ہی ملتی رہے تو نہ کامیابی کی قدر رہتی ہے اور نہ ہی محنت کا احساس باقی رہتا ہے۔

کھیل کے میدان میں یہ حقیقت سب سے زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ کرکٹ، فٹ بال یا ہاکی جیسے کھیلوں میں ایک ٹیم جیتتی ہے تو دوسری لازمی طور پر ہارتی ہے۔ یہی کھیل کا اصول اور حسن ہے۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ شکست برداشت نہ کرنے والے کھلاڑی یا شائقین حد سے زیادہ ردِ عمل دکھاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف کھیل کی روح کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ ہم ہار کو سیکھنے کے موقع کے بجائے ذلت سمجھ بیٹھے ہیں۔

لوگوں کی نفسیات میں “ہمیشہ جیتنا ہے” کا جنون دراصل معاشرتی دباؤ اور کامیابی کے معیار سے جڑا ہے۔ معاشرے میں کامیاب وہی سمجھا جاتا ہے جو ہر میدان میں آگے نکلے۔ یہی سوچ فرد کو ہار کے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھیل سے لے کر تعلیم اور کاروبار تک، جب ناکامی سامنے آتی ہے تو لوگ اسے برداشت کرنے کے بجائے اس پر شور مچاتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ہار ہی وہ استاد ہے جو ہمیں اپنی کمزوریوں کو سمجھنے اور بہتر بننے کا موقع دیتا ہے۔

اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو بڑے بڑے فاتحین اور مفکرین نے اپنی زندگی میں بارہا ناکامی کا سامنا کیا لیکن انہوں نے ان ناکامیوں کو اپنی جیت کی سیڑھی بنایا۔ تھامس ایڈیسن کی مثال لیجیے جس نے بلب ایجاد کرنے سے پہلے ہزار بار ناکامی دیکھی لیکن آخرکار وہی تجربات اس کی کامیابی کا سبب بنے۔ اسی طرح کھیلوں میں بھی مشہور کھلاڑیوں نے اپنی شکست سے سبق سیکھ کر نئے ریکارڈ قائم کیے۔ لہٰذا جیت پر خوش ہونا فطری ہے لیکن ہار پر واویلا کرنا ناپختگی کی علامت ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی ٹیم ہارتی ہے تو لوگ کھلاڑیوں پر تنقید کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ ہم کھیل کو کھیل نہیں سمجھتے بلکہ اپنی انا اور قومی وقار سے جوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ کھیل کا مقصد جسمانی صحت، ٹیم ورک اور برداشت کی تربیت دینا ہے۔ جب ہم ہار کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں تو نہ صرف کھیل کا مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ کھلاڑیوں کے حوصلے بھی پست ہو جاتے ہیں۔

انفرادی زندگی میں بھی جیت اور ہار کا یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ تعلیم، روزگار اور ذاتی تعلقات میں کبھی انسان جیتتا ہے تو کبھی ہارتا ہے۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ ہار کے باوجود انسان اپنی کوشش جاری رکھے۔ ہار انسان کو عاجزی سکھاتی ہے اور جیت اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتی ہے۔ لیکن اگر انسان ہر بار ہار پر واویلا کرے تو نہ اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اور نہ ہی وہ آگے بڑھ سکتا ہے۔

نتیجہ یہی ہے کہ جیت اور ہار زندگی کے دو پہلو ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ ہار دراصل جیت کی تیاری ہے اور جیت ہار کے بغیر بے معنی ہے۔ لوگوں کو اپنی نفسیات میں یہ تبدیلی لانی ہوگی کہ جیت پر جشن منائیں مگر ہار کو بھی کھلے دل سے قبول کریں۔ کھیل کا میدان ہو یا زندگی کا سفر، ہر ناکامی میں ایک سبق چھپا ہوتا ہے جو آئندہ کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں سیکھنا ہوگا کہ “جیت ہے تو ہار پہ واویلا کیوں؟”کیونکہ ہار ہی جیت کی بنیاد ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International