تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

منزل کی جستجو میں سفر کرتی ہوٸی تمثیلہ لطیف کی شاعری

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, April 4th, 2024

تحریم ڈوگر

کچھ عرصہ قبل تمثیلہ لطیف صاحبہ کی شاعری سے خلیل وجدان صاحب نے منتعارف کروایا
تمثیلہ صاحبہ کی شاعری اور ان دنوں کی ان کی تگ و دو کے بارے میں جان کے حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ اک خاتون کیسے حالات کا مقابلہ کر رہی اور اس کی شاعری میں اسکا جد و جہد عیاں بھی ہوتا ہے .
لیکن اس کے بعد جیسے کہیں یہ نام میرے لیے گُم ہو گیا ,
چند دن پہلے نامور صحافی قابلِ احترام یاسر صابری بھائی نے انکا کلام پی ڈی ایف کی شکل میں بھیجا اور مضمون لکھنے کا کہا.
مصروفیت کے باوجود انہیں انکار نہ کر سکی اور ثمثیلہ صاحبہ کے کلام کا مطالعہ شروع کیا.
تمثیلہ صاحبہ کے تینوں مجموعے ایک سے بڑھ کے ایک ہیں اور اس بات کہ عکاسی کرتے ہیں کہ تمثیلہ صاحبہ ایک حساس شخصیت کی مالکہ ہیں.
شاعری نام ہی کائنات کے بسیط مشاہدات اور قلب و ذہن کی واردات کو لطیف پیرائے میں بیان کرنے کا ہے۔ شاعر کو وہ دیدۂ بصیرت نگاہ عطا کیا گیا ہے جس کی بدولت شاعر ان چیزوں اور کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو عام انسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کی شاعری پرکبھی جزو پیمبری اورکبھی الہام ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
تمثیلہ صاحبہ ایک دردمند دل رکھتی ہیں۔ شاعری ان کے لیے وسیلۂ اظہار نہیں بلکہ اپنے آپ سے گفتگو کرنے کا ذریعہ ہے۔ تمثیلہ لطیف کی شاعری پڑھیے تو بادی النظر میں بڑے سادہ الفاظ اور سیدھے سادے خیالات نظر آتے ہیں لیکن دروں بینی سے جائزہ لیں تو ان میں گہرا فکری عمق اور پختگی کارفرما ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ سیدھے سادے شعر اپنے اندر معنی کی کیسی کیسی پرتیں سموئے ہوئے ہیں۔
تمثیلہ صاحبہ کے لفظوں میں بے وفائی کا دکھ جھیلنے کی اذیت بھی چھلکتی ہے , ان کے لفظ کہیں تو ہرجائی کی بے وفائی پہ خون کے آنسو روتے ہیں تو کہیں ہمت سے اسے لوٹ کے آنے پہ ٹھکرا کے رکھ دیتے ہیں.
شاعرہ اپنی داخلی کیفیات کو ابھارنے کے لیے بھاری بھرکم الفاظ، مبہم تشبیہات و استعارات اور گنجلک فلسفیانہ باتوں کا سہارا نہیں لیتی بلکہ عام فہم ،سادا ، سبک اور پیچ و خم سے عاری الفاظ سے ہی وہ معنی کی تہیں بٹھاتی چلی جاتی ہے۔
ان کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی خفتہ سی روانی بھی ہے اور تیز رو ندی کا جوش بھی۔ لہجہ کبھی نرم اور کبھی برہم ہوتا ہے۔ اس میں پچھلے زمانے کی ناسٹلجیائی اداسی بھی ہے اور مستقبل کی تابناک امیدیں بھی۔ شاعرہ کااپنے سلسلہ تلمذ سے والہانہ انسلاک اور لگاؤ بھی ملتا ہے اور اپنے ہم عصر اور ہمکار احباب کا تذکرہ بھی۔
سچا فنکار اپنے آس پاس کے حالات سے باخبر رہتا ہے ۔ حسن عسکری کے بقول ہر ادب پارہ اپنے اندر حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ تمثیلہ کا اشہب قلم بھی محض تخیل کی سرسبز اور رنگین وادیوں میں گلگشت نہیں کرتا بلکہ ان کے کان عصری ماحول کی چیخ پکار پر بھی لگے رہتے ہیں جو ان کےم فن میں ڈھل کر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔تمثیلہ صاحبہ کے بہت سے اشعار سہل ممتنع کا درجہ رکھتے ہیں۔ عام بول چال میں وہ اپنی بات کہہ گزرتی ہیں۔ آئیے ان کے چند اشعار دیکھتے ہیں.

زخم لگانے والے جا
دل ٹکرانے والے جا
ہم جی لیں گے دنیا میں
قسمیں کھانے والے جا
خون کے آنسو روتی ہوں میں
دل تڑپانے والے جا
یاں اب تیرا کوئی نہیں
لوٹ کے آنے والے جا
تو ہے ہجر کا مارا مگر
اشک بہانے والے جا
کس کی خاطر آتا ہے تو
درد جگانے والے جا
تمثیلہ کا عشق تھا سچا
دیر سے آنے والے جا

۲:-ہاتھ میں اک کتاب رکھتی ہوں
اور اس میں گلاب رکھتی ہوں

مجھ سے کوئی سوال مت کرنا
ورنہ میں بھی جواب رکھتی ہوں

کس کو کتنا حساب دینا ہے
اس کا پورا حساب رکھتی ہوں

تم ستاروں کی بات کرتے ہو
پاؤِں میں مہتاب رکھتی ہوں

لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں
میں بھی آنکھوں میں خواب رکھتی ہوں

کیسی کیسی محبتیں ہیں مجھے
کیسے کیسے عذاب رکھتی ہوں

خود میں تمثیلہ ڈوب جاؤں گی
اپنے اندر چناب رکھتی ہوں

ان کے یہاں اتھاہ انسان دوستی پائی جاتی ہے۔ احساس زیاں کا کرب اور گزرے دور کی محرومیوں کے تذکرے سے وہ ہمارے قلب و ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کہ کل تمثیلہ لطیف ہمارے لیے ایک جانا مانا نام ہو لیکن جو وہ آج ہیں اس کی داد تو دیتے چلیں۔
ان کے شعروں میں عام گفتگو کا سا انداز پایا جاتا ہے اور ایک سوچتی ہوئی غمگین لیکن سنجیدہ فضا قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ خلوص اور انسان دوستی ان کے اشعار کا خاصہ ہیں۔ زبان تصنع اور ریاکاری سے پاک ہے۔ ہاں کہیں کہیں آورد کا احساس ہوتا ہے اور ان کے ابتدائی دور کا کلام شامل اشاعت ہونے سے بعض فنی اسقام بھی در آئے ہیں لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کتاب کے مجموعی تاثر کو نقصان پہنچاتی ہو۔اس سب کے باوجود قاری کو ان کے اشعار موہ لیتے ہیں۔ یہ مجموعہ کتنا کامیاب ہے اس کا فیصلہ تو قارئین کو کرنا ہے۔ ہمیں بس اتنا کہنا ہےکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں تمثیلہ کو بس اسی پر قناعت نہیں کرنی ہے بلکہ اظہار کے نئے آفاق کو چھونا ہے لیکن یہ مشروط ہے عمیق مطالعہ و مشاہدہ اور کڑی ریاضت اور استقامت سے اور
دعاؤں سے جو ان شاء اللہ تمثیلہ صاحبہ کے ساتھ ہیں.

تحریم ڈوگر
شاعرہ
افسانہ و ناول نگار
بانی و سربراہ
تحریم رائٹرز فورم لاہور


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International