rki.news
رائٹر: وقاص علی وکاس
رونے کا جی چاہ رہا تھا مگر آنسو جیسے پتھر ہو کر آنکھوں کے کنارے جم گئے تھے۔ سینے میں ایک ٹھنڈا اور ساکت دریا تھا جو کبھی ابلتا نہیں تھا۔ یہ زندگی بھی عجیب ستم ہے کہ ہر طلوع ہونے والا خورشید ایک نیا غم اور ایک نئی آزمائش لے کر آتا اور جب تک وہ روح کو چھلنی نہ کر دیتا غروب ہونے سے انکار کر دیتا۔ آج کا سورج بھی اسی بے رحم سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
میں لاہور کی نہر روڈ سے کریم بلاک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس صبح کی اداس سرمئی روشنی میں جوں ہی کریم بلاک کے ٹریفک سگنل پر پہنچا ایک منظر نے جیسے میرے وجود کو چیر کر رکھ دیا۔ آسمان میرے سر پر سے پھٹ گیا اور زمین میرے پاؤں تلے سے سرک گئی۔
سامنے ایک پنجاب پولیس اہلکار کھڑا تھا۔ چہرے مہرے سے بظاہر ایک مضبوط انسان مگر اس کی آنکھوں میں اخلاقی غربت جھلک رہی تھی۔ وہ دور سے ایک جنگلی درندے کی طرح دھاڑتا ہوا ایک نہایت نحیف بڑھیا کی طرف لپکا جس کا حلیہ بھوک اور بے چارگی کی داستان سنا رہا تھا۔ پولیس اہلکار کی گرجدار آواز سنتے ہی بڑھیا پر موت کا سا سناٹا طاری ہوا اور اس نے اپنی ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں کے سہارے جان بچا کر بھاگنے کی ناکام کوشش کی۔ بیساکھیوں والا جسم اس طاقت کے نشے میں چور شخص کے سامنے کب تک ٹھہر سکتا تھا۔
اہلکار پل بھر میں اس کے قریب پہنچ گیا اور اس کی کمزوری پر ہنستا ہوا بولا “بڑھیا ساتھ چلو تھانے۔ تمہیں اس سڑک پر میری حاکمیت نظر نہیں آتی۔ کتنی بار کہا ہے کہ یہاں آ کر بھیک نہ مانگا کرو۔ تمہیں انسانیت کا کوئی خوف نہیں ہے کیا۔”
بڑھیا نے کانپتے ہونٹوں سے بڑی مشکل سے کہا “بیٹا کیا مانگنا گناہ ہے کیا میرے بڑھاپے پر ترس نہیں آتا۔ کب تک بھوکا رہوں میں تو چل بھی نہیں سکتی۔ مجھے چھوڑ دے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔”
اہلکار نے بے حسی سے سر جھٹکا اور بولا “یہ ڈرامہ میرے سامنے نہیں چلے گا۔ تمہارے آنسو اب بکتے نہیں ہیں۔ اپنا یہ بے چارگی کا کھیل بند کرو۔” اس نے بڑھیا کی فریاد کو کچلتے ہوئے اپنا ہاتھ تیزی سے اس کے دوپٹے کی طرف بڑھایا۔
اس جگہ جہاں اس نے اپنے پیٹ کی آخری امید یعنی دو سو روپے باندھ رکھے تھے۔ وہ رقم چھین کر اہلکار تکبر اور نخوت سے کہتا ہوا پلٹ گیا “آج کے بعد یہاں سائے میں بھی نظر نہ آنا ورنہ تھانے چلو گی اور ایسی سزا ملے گی کہ روح کانپ اٹھے گی۔”
اور پھر وہ مضبوط قدموں سے ظلم کو ہوا دیتا ہوا چلتا بنا۔ پیچھے چھوڑ گیا ایک خالی آنکھوں والی نحیف و نزار بڑھیا کو جس کی جھریوں میں صدیوں کا درد سمٹ آیا تھا۔ اس کے پاس آج سورج کی نئی تپش سہنے کے لیے نئے غم اور سوکھے آنسوؤں کے سوا کچھ نہ تھا۔
Leave a Reply