rki.news
تحریر شازیہ عالم شازی
رات کے تقریباً دس بجے کا وقت تھا۔ میں جوہر موڑ کراسنگ پر اپنی گاڑی موڑنے کے لیے رکی۔ ہمیشہ کی طرح وہاں ٹریفک کا ہجوم تھا اور گاڑیاں ایک ایک کرکے ٹرن کاٹ رہی تھیں۔ میں نے جیسے ہی گاڑی ذرا آگے بڑھائی، اچانک ایک سفید کار نمبر -BCK 338 – پوری شدت سے آ کر میری گاڑی سے ٹکرا گئی ٹکر اتنی زور دار تھی کہ میرا سر زور سے ڈیش بورڈ سے لگا، اندر رکھی تمام چیزیں زمین پر گر گئیں اور گاڑی کے اگلے حصے پر واضح ڈینٹ پڑ گئے۔ میں سنبھلی ہی تھی کہ وہ صاحب بڑے اطمینان اور بے نیازی سے اپنی گاڑی سے باہر نکلے۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنی گاڑی کا جائزہ لیا — شاید انھیں فکر تھی تو صرف اپنی گاڑی کے نقصان کی۔
میں نے انھیں بتایا کہ مجھے چوٹ لگی ہے، سر میں درد بڑھتا جا رہا ہے۔ انھوں نے رسمی سی معذرت کی، مگر جیسے ہی میں نے ٹریفک میں رکاوٹ سے بچنے کے لیے اپنی گاڑی ایک طرف کی، وہ صاحب اطمینان سے گاڑی میں بیٹھے اور موقع سے فرار ہو گئے۔
میری حیرت تب دوچند ہوئی جب میں نے گاڑی کے “ہیزرڈ لائٹس” آن کر کے مدد کی علامت دی مگر کسی نے رک کر پوچھنا گوارا نہ کیا کہ کیا ہوا ہے۔ میں کسی طرح خود گاڑی چلا کر گھر، بلاک 15 پہنچی۔ سر میں درد کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ بات کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔
کراچی میں ٹریفک حادثات کوئی نئی بات نہیں، مگر اصل حادثہ جسم سے زیادہ دل پر لگا۔ میں اپنی گاڑی کے نقصان کو تو بھول سکتی ہوں، مگر اس شخص کی بے حسی کو نہیں، جو میری تکلیف جاننے کے باوجود وہاں سے چلا گیا۔
یہ محض ایک واقعہ نہیں یہ اس اخلاقی زوال کی علامت ہے جو ہم روز دیکھتے ہیں مگر محسوس نہیں کرتے۔ جب انسانیت سڑک پر زخمی پڑی ہو اور ہم بس اپنی گاڑی کا نقصان گن رہے ہوں، تو پھر سوال یہی بنتا ہے کہ
کیا واقعی انسانیت سے اعتبار اٹھنے کو ہے؟
اب میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ BCK 338 نمبر والی گاڑی کے مالک صاحب، اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو فوری مجھ سے رابطہ کریں میں کسی کی بے حسی معاف نہیں کرسکتی۔
Leave a Reply