rki.news
تحریر: احسن انصاری
دو سال سے جاری خونریز جنگ، تباہی، انسانی المیے اور سیاسی تناؤ کے بعد بالآخر مشرقِ وسطیٰ میں امید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 2025 میں ہونے والا نیا امن معاہدہ اس بات کی علامت ہے کہ شاید اب وہ وقت قریب ہے جب جنگ کی راکھ سے امن کا نیا سویرا جنم لے گا۔
یہ تباہ کن جنگ اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی، جب اسرائیل اور حماس کے درمیان شدید جھڑپوں نے پورے غزہ کو میدانِ جنگ بنا دیا۔ ابتدائی چند ہفتوں میں ہی ہزاروں اسرائیلی فضائی حملے کیے گئے جن سے رہائشی علاقے، اسپتال، اسکول اور عبادت گاہیں تباہ ہو گئیں۔ جنگ کے پہلے چھ ماہ کے دوران اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 28,000 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
جنگ کے دوسرے سال یعنی 2025 کے اختتامی مہینوں تک اسرائیلی کی شدید بمباری سے یہ تعداد بڑھ کر 67,000 سے تجاوز کر گئی۔ ان میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے جن کی اکثریت عام شہری تھی۔ علاوہ ازیں، 1,05,000 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ہزاروں تاحال اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
مسلسل بمباری اور محاصرے کے باعث لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق صرف دو برسوں میں غزہ کے اندر تقریباً بیس لاکھ سے زائد شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ بیشتر خاندان رفح، خان یونس اور وسطی غزہ کے کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جہاں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت تھی۔
غزہ کی پٹی، جو پہلے ہی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتی ہے، اس جنگ کے بعد ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی۔ اسپتالوں میں بجلی کا فقدان، میڈیکل سپلائی کی کمی، اور صاف پانی کی فراہمی تقریباً معطل ہو چکی تھی۔ عالمی تنظیموں نے اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین انسانی بحران قرار دیا۔
اسی پس منظر میں 2025 کے اوائل میں بڑی بین الاقوامی انسانی کوشش سامنے آئی جسے “فلوٹیلا مشن برائے غزہ امداد” کہا گیا۔ یہ مشن مختلف ممالک کے رضاکاروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی امدادی اداروں پر مشتمل تھا۔ درجنوں جہاز خوراک، ادویات اور پینے کا صاف پانی لے کر غزہ کے ساحل کی جانب روانہ ہوئے۔
اس مشن کا مقصد اسرائیلی محاصرے میں پھنسے لاکھوں فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچانا تھا۔ تاہم اسرائیلی نیوی نے اس بیڑے کو غزہ کے ساحل کے قریب روک لیا اور کئی گھنٹوں کی کشیدگی کے بعد بعض جہازوں کو موڑ دیا۔ اور جہازوں پر موجود رضا کاروں کو قیدی بنالیا جنہیں بعد میں عالمی دباؤ کے تحت ڈی پورٹ کر دیا گیا ۔ اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، اقوامِ متحدہ نے اس اقدام پر سخت تشویش کا اظہار کیا، اور متعدد ممالک نے مطالبہ کیا کہ امدادی قافلوں کو غزہ میں بلا روک ٹوک داخلے کی اجازت دی جائے۔
فلوٹیلا مشن کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک بار پھر فلسطینیوں کی حالتِ زار پر توجہ مبذول ہوئی اور یہ دباؤ بڑھا کہ جنگ کے خاتمے اور امن معاہدے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
اسی عالمی دباؤ اور انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت مصر، قطر، ترکی اور امریکہ نے مشترکہ سفارتی کوششوں کا آغاز کیا۔ متعدد خفیہ ملاقاتوں اور دوحہ و قاہرہ میں مذاکراتی ادوار کے بعد آخرکار اکتوبر 2025 میں ایک 20 نکاتی امن منصوبہ طے پایا۔ یہ منصوبہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ تجاویز اور مصر و قطر کی ثالثی پر مبنی ہے۔
معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں نے تمام فوجی کارروائیاں بند کرنے، قیدیوں کی رہائی، اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر اتفاق کیا۔ رفح کراسنگ دوبارہ کھول دی جائے گی۔ اور روزانہ 600 سے زائد امدادی ٹرک خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن لے کر غزہ میں داخل ہوں گے۔
یہ معاہدہ باہمی اعتماد سازی کی ایک اہم علامت ہے۔ حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جبکہ 28 جاں بحق افراد کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کیں۔ اس کے بدلے میں اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا، جن میں خواتین اور کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ اس اقدام کو خطے میں ایک نئے دور کی ابتدا کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امن منصوبے کے تحت اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ بتدریج اپنی افواج کو غزہ کے جنوبی اور وسطی علاقوں سے واپس بلائے گا، تاہم سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر چند مخصوص علاقوں میں محدود فوجی موجودگی برقرار رہے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال ابھی بھی زیرِ غور ہے کہ اسرائیل کے انخلا کے بعد غزہ کا انتظامی ڈھانچہ کون سنبھالے گا۔ مصر اور اقوامِ متحدہ کی تجویز کے مطابق ایک عبوری فلسطینی حکومت یا بین الاقوامی نگران کونسل قائم کی جا سکتی ہے، تاکہ تعمیرِ نو اور نظم و نسق کا عمل شفاف انداز میں مکمل ہو۔
اس معاہدے کے فوراً بعد مصر، امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے ’’غزہ ریکوری فنڈ‘‘ کے قیام کا اعلان متوقع ہے۔ جس کے تحت اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی جائے گی۔ اقوامِ متحدہ کی مختلف ایجنسیاں تعمیرِ نو کے منصوبوں کی نگرانی کریں گی تاکہ امداد صحیح ہاتھوں تک پہنچ سکے۔
غزہ میں اب بھی 70 فیصد سے زائد بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ اسپتال، اسکول، بجلی کے پلانٹس، پینے کے پانی کے نظام اور رہائشی عمارتیں مکمل طور پر مسمار ہو گئی ہیں۔ عالمی ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر تعمیرِ نو کے کام میں شفافیت اور تسلسل نہ رکھا گیا تو امن کا خواب دیرپا نہیں ہو پائے گا۔
13 اکتوبر 2025 کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں ’’غزہ امن کانفرنس‘‘ منعقد ہو رہی ہے۔ جس میں تیس سے زائد ممالک نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت صدر عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشترکہ طور پر کریں گے۔ اس اجلاس میں شرکت کےلیے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف بھی شرم الشیخ پہنچے ہیں۔ اس اجلاس کا مقصد جنگ بندی کو ایک پائیدار امن معاہدے میں تبدیل کرنا تھا۔
اقوامِ متحدہ نے اس معاہدے کو ’’تاریخی پیش رفت‘‘ قرار دیا، جبکہ قطر اور ترکی نے اسے ’’تباہی پر سفارتکاری کی فتح‘‘ کہا۔
پاکستان نے بھی معاہدے کا خیر مقدم کیا اور فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
تاہم امن معاہدے کے باوجود خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اسرائیل حماس کے مکمل غیر مسلح ہونے پر اصرار کر رہا ہے جبکہ حماس اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرانے پر زور دے رہی ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی کمی اب بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر امن کی کوششوں کے ساتھ تعمیرِ نو کا عمل سست یا متنازع ہوا تو تشدد دوبارہ جنم لے سکتا ہے۔
غزہ کی دو سالہ جنگ میں 67,000 سے زائد زندگیاں ختم ہو چکیں ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ یہ اعداد محض اعداد نہیں، بلکہ ہر ایک کے پیچھے ایک کہانی، ایک خاندان، ایک خواب دفن ہے۔ امن معاہدہ اگرچہ نازک بنیادوں پر قائم ہے، اگر اسرائیل معاہدہ کو اپنی ذمہ داری سے نبھائے تو یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن اور انسانی بحالی کی بنیاد بن سکتا ہے۔
Leave a Reply