rki.news
کالم نگار۔۔۔۔ نواز ساجد نواز
ایم فل اردو
رفاہ یونیورسٹی
موجودہ دور میں انسان کی اصل قدر و قیمت کا پیمانہ علم، کردار یا اخلاق نہیں بلکہ دولت بن چکی ہے۔ جس معاشرے میں کبھی انسان کی پہچان اس کی دیانت، سچائی اور خدمتِ خلق سے ہوا کرتی تھی، آج وہاں پیسے کی چمک نے سب قدریں ماند کر دی ہیں۔ لوگوں کا احترام اب اس کے بینک بیلنس سے طے ہوتا ہے نہ کہ اس کے کردار سے۔ جس کے پاس دولت ہے، وہی عزت دار کہلاتا ہے اور جس کے پاس نہیں، وہ اکثر محرومیوں کا شکار رہتا ہے۔ اس تبدیلی نے انسانی رشتوں میں خلوص کی جگہ مفاد کو جنم دیا ہے اور انسانیت کے وقار کو دولت کے ترازو میں تولنا عام رواج بن گیا ہے۔
پیسہ انسان کی بنیادی ضرورت ضرور ہے، مگر جب یہ مقصدِ حیات بن جائے تو معاشرہ اخلاقی تباہی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ آج جھوٹ، دھوکہ، چالبازی، اور موقع پرستی کو “دانائی” سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان سے مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ پہلے انسان اپنی عزت کو دولت سے بڑھ کر سمجھتا تھا، اب عزت بھی دولت کی مرہونِ منت ہے۔ ایک غریب مگر ایماندار شخص کو اکثر معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دولت مند کے گناہ بھی نیکیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس اخلاقی انحطاط نے انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے، اور روحانی سکون مادی آسائشوں کی نذر ہو گیا ہے۔
پہلے زمانے میں رشتے خلوص اور محبت کے ریشم سے جڑے ہوتے تھے، مگر آج مفاد کی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ دوست، رشتہ دار اور حتیٰ کہ ازدواجی تعلقات بھی اکثر مالی مفادات پر قائم ہیں۔ اگر کسی کے پاس دولت ہے تو اس کے گرد لوگوں کا ہجوم رہتا ہے، مگر جب حالات بدل جائیں تو سب چہرے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ پیسہ اب محبت، دوستی، اور خلوص کے توازن کو نگل چکا ہے۔ انسان کی حیثیت اس کے بینک اکاؤنٹ سے طے ہونے لگی ہے۔ یہ معاشرتی بیماری تعلقات کو کھوکھلا اور بے روح بنا رہی ہے، جہاں دلوں کی جگہ نوٹوں نے لے لی ہے۔
میڈیا نے بھی پیسے کو کامیابی کا مترادف بنا دیا ہے۔ ٹی وی اشتہارات، سوشل میڈیا انفلوئنسرز، اور مشہور شخصیات سب دولت کی نمائش کو عزت کی علامت بنا چکے ہیں۔ نوجوان نسل کے لیے اب کامیابی کا مطلب ایک عالیشان گاڑی، قیمتی موبائل اور فالوورز کی تعداد ہے۔ نتیجتاً، اخلاقی اور علمی کامیابیاں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ انسان اپنی اصل پہچان سے دور ہو کر دکھاوے کے خول میں قید ہے۔ اس دوڑ نے معاشرے کو مادیت کی غلامی میں مبتلا کر دیا ہے جہاں انسان اپنی روحانی پہچان کھو بیٹھا ہے۔
پیسہ انسان کی خدمت کے لیے ہونا چاہیے، مگر اب انسان پیسے کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ انسان کی قدر و منزلت کا اندازہ اب اس کے لباس، گاڑی یا رہائش سے لگایا جاتا ہے، اس کے علم یا کردار سے نہیں۔ غریب انسان کی بات کو اکثر کوئی سننا گوارا نہیں کرتا، چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ کہہ رہا ہو۔ دولت مندوں کی بات خواہ غلط بھی ہو، اسے “دانائی” سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحۂ فکریہ ہے جب معاشرہ اپنی روحانی بنیادوں سے کٹنے لگتا ہے۔ انسان اب اپنی ذات کا قیدی بن چکا ہے، اور وقارِ انسانیت بازاروں کی بولیوں میں بک رہا ہے۔
چھٹا پیراگراف: ضرورتِ بیداری
یہ عہدِ زر پرستی ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی ترجیحات درست نہ کیں تو انسانیت کا مفہوم مٹ جائے گا۔ ہمیں دوبارہ یہ سیکھنا ہوگا کہ انسان کی قدر اس کے اعمال، علم، کردار، اور نیت میں ہے، نہ کہ اس کے پاس موجود دولت میں۔ معاشرے میں حقیقی خوشی اور اطمینان تب ہی لوٹ سکتا ہے جب ہم انسان کو اس کی انسانیت کے سبب عزت دیں، نہ کہ اس کے مال و دولت کے سبب۔ پیسہ ضروری ہے مگر اس کا غلام بن جانا سب سے بڑی تباہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انسان قیمتی ہے، پیسہ نہیں کیونکہ پیسہ انسان بناتا نہیں، انسان ہی پیسہ بناتا ہے۔
Leave a Reply