rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
کبھی کبھی میں غورو فکر کرتے کرتے اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں تو میرے جسم کا ایک ایک جب رواں کھڑا ہو جاتا ہے، میری پیشانی عرق آلود ہو جاتی ہے، میری نس نس پھڑکنا شروع ہو جاتی ہے، میرے رونگٹے کھڑے جاتے ہیں، کبھی کبھی مجھے جھر جھری آ جاتی ہے، سردی ہو تو میرے جسم کا درجہ حرارت،بڑھنا شروع ہو جاتا ہے، اور اگر جون جولائی کی گرمی ہو تو مجھ پہ ٹھنڈی کپکپکی طاری ہو جاتی ہے، اب آپ سب لا محالہ سوچیں گے کہ میں کوئی نیک، نرم دل، احساس پرور اور رحمدل انسان ہوں، جس کے دل میں انسانیت کا درد، خون بن کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ساتھ رواں رہتا ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں میں انتہائی، تنگ نظر، سخت جان، سنگدل، ظالم و جابر، انتہائی درشت لب و لہجے والا کافی کنجوس اور کمینہ انسان ہوں، میں بنجارہ تو ہوں سو ہوں، ہتھیارا بھی ہوں، اب آپ کے دل میں پھر یہ سوال سر اٹھاے گا کہ میں ہوں کون آخر؟ کہ ساری کی ساری برائیاں ہی مجھ میں پای جاتی ہیں، تو میں اپنے علاقے کا غنڈہ ہوں، کراے کا قاتل ہوں، قبضہ کرنے اور جاییدادیں ہتھیانے میں ماہر ہوں، سچ تو یہ کہ پکا بدمعاش ہوں، شریف لوگ مجھے دیکھتے ہی اپنا راستہ بدل لیتے ہیں، ہاتھ خون میں رنگ رکھے ہیں اور جان ہتھیلی پہ لیے پھرنے والے جس بے شرمی اور دیدہ دلیری سے جیتے ہیں، میں بالکل ایسے ہی جیتا ہوں، مجھے یہ اقرار کرنے میں کسی قسم کا کوئی عار نہیں کہ میرے اللہ نے میری قسمت میں انتہائی برا ہونا لکھ کے مجھے اس ظالم دنیا میں انتہا کا ظالم بنا کر بھیج دیا،
کیا اور کیسا ہوتا ہے یہ ظالم ہونا بھی، بغیر کسی احساس اور درد کے دوسروں کے حقوق مسلسل چھیننا اور ایک پل کے لیے بھی شرمندہ نہ ہونا، ایسے ہی کرتا تھا میں بس ایک محرومی کا پیٹ بھرنے کے. لیے میں سارے برے کام کرتا تھا. وہ سردیوں کی یخ بستہ ڈراونی، گھپ اندھیری، کالی سیاہ رات تھی، ننھا حارث ماں کی چھاتی میں دبک کر بے خبر سویا ہوا تھا، اچانک کسی کے چیخنے چلانے کی آواز نے گہری نیند کے خمار سے دنیاوی کرختگی اور بے رحمی کے جہان میں لا پھینکا، اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کو چند لوگ بڑی بے رحمی سے زمین پہ گھسیٹ رہے تھے، خوف کے مارے اس نے اپنا منہ کمبل میں چھپا لیا، اس کی ماں جاگ چکی تھی مگر اس نے بھی آنکھیں موند رکھی تھیں، تھوڑی دیر بعد گولیاں چلنے کی آوازیں آیں، اور ساتھ ہی گولیاں چلانے والوں کے بھاگنے کی بھی، حارث نے زور زور سے رونا شروع کر دیا، حارث کی ماں بھی بستر سے نکل آی، دوسرے بیڈروم میں حارث کے ابا اوندھے منہ گرے پڑے تھے، ان کے سر سے خون کی ایک ندی رواں تھی، جس نے پورے کمرے کو ہی خونوں خون کر دیا تھا، کوی دشمنی تھی، کوی لین دین کا جھگڑا تھا، جو بھی تھا سات سالہ حارث کا باپ دنیا چھوڑ چکا تھا، وہ یتیم ہو چکا تھا، اس کے دماغ میں اس محرومی اور بے بسی کا بیج بویا جا چکا تھا، جس نے اس کی آنے والی ساری زندگی کو لہو لہان اور داغدار کر دینا تھا، ماں اس کے ساتھ نہ رہی مگر اس نے اپنی ماں کی سیوا ہمیشہ ایسے ہی کی. جیسے کوی ماں اپنے نو مولود بچے کی کرتی ہے، سال پہ سال گزر گیے تھے، حارث بدلے کی آگ میں یوں اندھا ہوا کہ گھر، گاوں، اپنے اور زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ماں تک سب ہاتھوں سے نکل گیے، رہ گیا تو صرف اور صرف ملال اور تنہائی . ہاں ماں ہمیشہ اس کے لیے دعا کرتی تھی، اس کی نیک نامی، خوشحالی اور لمبی عمر کی، اب نیک نامی اور خوشحالی کا تو پتا نہیں لمبی عمر اسے جی بھر کے عطا ہوی تھی، اس نے سن رکھا تھا کہ ماں کی دعا انسان کو ہر مشکل سے نکال لاتی ہے، برے سے برا انسان بھی ماں کی دعاووں کے سہارے پل صراط کو عبور کر ہی لیتا ہے، ماں کی دعا تو اس کے ساتھ ہمیشہ ہی رہی ہاں پل صراط اس سے عبور نہ ہوتا تھا، شاید ماں کی دعاؤں کے بیچ کسی دوسری ماں کی بدد عا آ کے اس کی راہ کو کھوٹا کر دیتی تھی،
دعا اور بد دعا
لوگوں کے دل بھی تو توڑے ہوں گے.
لوگ روتے ہوے چھوڑے ہوں گے
ماں کی خدمت تو بہت کی ہو گی
پر کءی دل بھی تو توڑے ہوں گے
نیند سے آنکھیں بھری ہوں گی مگر
نیند ظالم پہ نہ مہرباں ہو گی
اس میں کوی شک نہیں کہ ماں کی دعا رد بلا ہوتی ہے مگر جب کسی ماں کی بد دعا اس دعا کے بیچ میں حایل ہو جاے تو پھر حارث جیسے لوگ ایسے ہی در بدر رہتے ہیں اور ایسے ہی مارے مارے پھرتے ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Leave a Reply