rki.news
تحریر: شازیہ عالم شازی
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ طاقت کے مراکز مشرق و مغرب کے درمیان ایک نئی صف بندی میں ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کا دور اب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، اور عالمی سیاست ایک نئی حقیقت کو جنم دے رہی ہے جہاں امریکہ، چین اور روس تین بڑے محور بن چکے ہیں۔ انہی بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان ایک بار پھر بین الاقوامی بساط کے بیچوں بیچ آ کھڑا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بدلتی دنیا پاکستان کے لیے موقع ہے یا خطرہ؟حالیہ مہینوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے واشنگٹن کی جانب سے سیاسی، دفاعی اور اقتصادی سطح پر بڑھتی ہوئی گرمجوشی اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ امریکہ خطے میں پاکستان کو دوبارہ اہم کردار دینا چاہتا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد واشنگٹن کو خطے میں ایک ایسا ملک درکار ہے جو توازن قائم رکھ سکے اور چین و روس کے اثر کو محدود کر سکے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث ایک فطری انتخاب ہے۔ مگر یہ نئی قربت پرانی طرح کی غیر مشروط دوستی نہیں، بلکہ ایک حساب شدہ تعلق ہے، جس میں مفادات کی لکیر واضح ہے۔ امریکہ پاکستان کو اس وقت تک قریب رکھے گا جب تک اسے اس کی ضرورت ہے، اور پاکستان کو اس تعلق سے فائدہ تبھی ملے گا جب وہ اپنی پالیسیوں کو قومی مفاد کے دائرے میں رکھے دوسری طرف، امریکہ سے بڑھتی ہوئی قربت نے چین اور روس دونوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ چین نے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کسی ایسے اتحاد کا حصہ بنے جو اس کے منصوبوں یا خطے میں اس کے اثر و رسوخ کے لیے خطرہ بنے۔ روس بھی پچھلے چند برسوں میں پاکستان کے ساتھ دفاعی اور توانائی منصوبوں پر تعاون بڑھا چکا ہے۔ اگر پاکستان ایک بار پھر مغربی بلاک کی طرف مکمل جھکاؤ دکھاتا ہے تو یہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں یوں پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ تینوں طاقتوں کے درمیان توازن قائم رکھے، کیونکہ کسی ایک فریق کو ناراض کرنے کا مطلب دوسرے دروازے بند کرنا ہے۔
ان بیرونی دباؤ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی سرحدوں کے اندر بھی ایک غیر مستحکم صورتحال کا سامنا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار ہیں۔ سرحدی جھڑپیں، دہشتگردی کے بڑھتے واقعات اور پناہ گزینوں کے مسائل نے ملکی سلامتی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات وقتی سکون لا سکتے ہیں، مگر جب تک دونوں ممالک دہشتگرد گروہوں کے خاتمے اور سرحدی نظم و ضبط پر واضح معاہدے تک نہیں پہنچتے، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف سکیورٹی کا معاملہ نہیں، بلکہ پاکستان کی معیشت اور سفارت کاری پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، کیونکہ بدامنی سرمایہ کاری کے راستے روکتی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کو سست کر دیتی ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش دراصل اندرونی ہے۔ کوئی بھی ملک خارجہ سطح پر اس وقت تک مضبوط کردار ادا نہیں کر سکتا جب تک اندرونی طور پر متحد اور معاشی طور پر مستحکم نہ ہو۔ سیاسی عدم استحکام، ادارہ جاتی کھینچا تانی، اور عوامی مایوسی نے ریاست کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر سیاسی قیادت وقتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرے تو یہی داخلی استحکام پاکستان کی خارجہ پالیسی کو طاقت دے سکتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی سمت واضح کرے۔ ہمیں مغرب یا مشرق کے درمیان کسی ایک کیمپ میں شامل ہونے کے بجائے ایک متوازن اور خودمختار خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ چین کے ساتھ اقتصادی تعاون برقرار رکھا جائے، امریکہ سے تعلقات کو حقیقت پسندی کے ساتھ بڑھایا جائے، اور روس سے توانائی و دفاعی روابط کو وسعت دی جائے۔ یہ “توازن کی پالیسی” ہی پاکستان کو عالمی سیاست میں باوقار مقام دے سکتی ہے۔
اسی کے ساتھ معاشی اصلاحات کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل، ٹیکس نیٹ کی وسعت، کرپشن کے خاتمے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی — یہ وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کو بیرونی انحصار سے آزاد کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی افغانستان، ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور خلیجی دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا ناگزیر ہے، تاکہ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کو معاشی مرکز میں بدل سکے۔
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا موقع یہی ہے کہ وہ دانش مندی اور توازن کے ساتھ آگے بڑھے۔ اگر ہم داخلی استحکام، معیشت کی بحالی اور متوازن خارجہ پالیسی پر توجہ دیں تو پاکستان ایک مضبوط، خودمختار اور فیصلہ ساز ملک بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، ہم ایک بار پھر دوسروں کے فیصلوں کے تابع مہرہ بن کر رہ جائیں گے۔ مستقبل کا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے شرط صرف اتنی ہے کہ ہم اپنی سمت خود طے کریں۔
بنتِ پاکستان کے قلم سے
مضمون کے ماخذ اور حوالہ جات
بین الاقوامی ذرائع (Global)
پاکستانی تجزیاتی یا تحقیقی ادارے
حکومتی یا بین الاقوامی رپورٹیں (IMF, SIPRI, UN وغیرہ)
Leave a Reply