Today ePaper
Rahbar e Kisan International

غزہ امن معاہدہ،لیکن امن ہوتا نظرآنا بھی چاہیے

Articles , Snippets , / Sunday, October 19th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نواز خان
allahnawazk012@gmail.com
غزہ امن معاہدہ،لیکن امن ہوتا نظرآنا بھی چاہیے
غزہ اور اسرائیل کے درمیان دو سالوں سے جاری جنگ کاجنگ بندی معاہدہ ہونے کے باوجود بھی خاتمہ نہ ہو سکا۔پہلے بھی جنگ بندی معاہدہ ہو چکا تھا مگر اسرائیل نے کسی معاہدے کی پرواہ نہ کی اور خلاف ورزی کرکےجنگ جاری رکھی۔اب امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے امن معاہدہ کے نام پر ایک جنگ بندی معاہدہ کیا ہے۔اس معاہدے کے مطابق جنگ بندی ہو چکی ہے مگر اسرائیل پھر اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔تقریبا دو سالوں تک جاری رہنے والی جنگ،غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر چکی ہے۔فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جنگ میں شہید اور کافی تعداد زخمی بھی ہو چکی ہے۔رہائشی عمارتیں بھی ملبے میں تبدیل ہو گئی ہیں۔لاکھوں افرادبے گھر ہوگئےہیں اور غذائی بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔امن معاہدہ ہونے کے باوجود بھی فلسطینیوں کی پریشانی میں کمی نہ ہو سکی۔سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا ہے اورغزہ کے شہریوں تک خوراک نہیں پہنچ رہی کیونکہ اسرائیل کی طرف سے رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ کےقحط زدہ علاقوں تک امدادی قافلوں کی رسائی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ بمباری کی وجہ سے سڑکوں اور راستوں کو نقصان پہنچا ہےاوردوسری وجہ اسرائیل کی طرف سے بمباری کر دی جاتی ہے۔خوراک پہنچنے میں مزید دیر کا مطلب ہوگا کہ بہت سی اموات ہو جائیں۔خوراک کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی بھی پہنچنا ضروری ہیں۔مثال کے طور پر ادویات اور کپڑے وغیرہ فوری طور پر فلسطینیوں کو مہیا ہونےچاہیے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کے باوجود شمال کی اہم امدادی گزر گاہیں بھی بند ہیں۔اقوام متحدہ کے زیر انتظام عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ دو سال جاری رہنے والی جنگ کی امریکی ثالثی میں خاتمے کے بعد روزانہ اوسطا 560 ٹن امداد غزہ میں داخل ہو رہی ہے،تاہم یہ مقدار اب بھی علاقے کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔پورے غزہ کو بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے،لیکن بہت زیادہ رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔امداد کی تقسیم کا صحیح عمل ابھی تک شروع نہیں ہو سکا،کیونکہ اسرائیل اور شمالی غزہ کے درمیان واقعی زیکیم اور ایرز(بیت حانون) کی سرحدی گزر گاہیں اسرائیل نے اب بھی بند کی ہوئی ہیں.کچھ خوراک پہنچ رہی ہے لیکن بہت زیادہ کی ضرورت ہے۔
خوراک بھی نہیں پہنچنے دی جا رہی اور بمباری بھی کی جا رہی ہے۔ایک بس پر بمباری کی گئی جس میں نو فلسطینی شہید اور کچھ زخمی ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ اور علاقوں میں بھی مکمل امن نہیں آسکا،جو کہ قابل مذمت ہے۔بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے مگر اس خلاف ورزی کانوٹس نہیں لیا جا رہا۔اس کو بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا کہ فلسطین کی زمین پر زبردستی قبضہ کیا گیا ہے اور مزید قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔فلسطینی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،جو کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان کا بنیادی حق ہے۔اسرائیل اس لیے بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے،کیونکہ اس کو کئی طاقتوں کی مدد حاصل ہے۔اطلاعات کے مطابق ٹرمپ امن معاہدہ خاص مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔امن ضروری ہے کیونکہ بد امنی نے لاکھوں افراد کی زندگیاں متاثر کر دی ہیں،اس لیے معاہدہ کی پاسداری ہونی چاہیے۔اسرائیل اگر معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا تو اس کو پاسداری کرنےکےلیے پابند کیا جائے۔جب تک غزہ میں امن نہیں آئے گا اس وقت تک مشرق وسطی کاعلاقہ بد امنی کا شکار ہوتا رہے گا۔مشرق وسطی میں امن لانے کے لیے خطے کے دیگر ممالک کو اتحاد کرنا ہوگا ورنہ وہ بھی بدامنی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے کہ نیتن یاہو غلط کر رہا ہے،مگر پھر بھی اس کو روکا نہیں جا رہا۔ بین الاقوامی عالمی عدالت (آئی سی سی) نے بھی اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا ہوا ہے،جو کہ انتہائی درست فیصلہ ہے۔گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو اور گیلانٹ پر غزہ جنگ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیاتھا۔اسرائیل نےبین الاقوامی عدالت میں الزام ہٹانے کے لیے درخواست دی لیکن عدالت میں اسرائیل کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا ہے۔عدالت نے کہا کہ وارنٹ کو ختم کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ اب بھی امن کے لیے کوششیں کی جا سکتی ہیں،جتنی زیادہ دیر ہوگی اتنا نقصان زیادہ ہوتا جائے گا۔اسرائیل حماس کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔حماس ابھی تک مضبوطی سے قائم ہے اور اس کا غزہ پر مکمل کنٹرول ہے۔حماس کا غزہ پر کنٹرول اسرائیل کے لیے ناقابل برداشت ہے۔اسرائیل ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ حماس کو ختم کیا جائے یا اس کے اثرات ختم کر دیے جائیں۔خاص کرسیکیورٹی انتظام اسرائیل اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔سیکیورٹی کا انتظام اگر اسرائیل کے پاس ہوا تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام غزہ کا علاقہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔حماس نے اپنی جڑیں عوام میں مضبوطی سے جمائی ہوئی ہیں اور یہ فلسطینیوں کی مکمل پشت بانی کرتی ہے نیز سیاسی انتظام بھی اس کے پاس ہے۔لاکھوں فلسطینیوں کی ترجمانی کرنے والی حماس کا خاتمہ ناممکن ہے،کیونکہ یہ فلسطینیوں کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔غزہ امن معاہدہ فوری طور پر نافذ العمل ہونا ضروری ہے تاکہ جلد از جلد امن کی طرف بڑھا جا سکے۔
اسلامی ریاستیں خاموش سے تماشہ دیکھ رہی ہیں،جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔اسلامی ریاستیں فوری طور پر غزہ کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔فلسطینیوں تک انسانی مدد فوری طور پر پہنچانا ضروری ہے۔ادویات،غذا،پانی اور دیگر ضروری اشیاء فوری طور پر غزہ کے رہائشیوں تک پہنچائی جائیں۔موسم سے بچاؤ کے لیے ضروری اشیاءبھی پہنچائی جائیں کیونکہ موسم بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔امن معاہدہ تو ہو چکا ہے لیکن امن ہوتا نظر آنا بھی چاہیے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International