rki.news
مرے حق میں تیری دعا نہیں مجھے علم ہے
وہ درختِ ربط ہرا نہیں مجھے علم ہے
مرے بخت میں نہیں روشنی تری چاہ کی
وہ وفا چراغ جلا نہیں مجھے علم ہے
تری خامشی سے کہاں ہے کوئی گلہ مجھے
مِرا خط ہی تجھ کو ملا نہیں مجھے علم ہے
کوئی زرد شاخ گری تھی سبز درخت سے
یہ دلیلِ ترکِ وفا نہیں مجھے علم ہے
چلے اُس کا نام بگاڑنے چلو چُپ رہو
کہ وہ شخص اتنا برا نہیں مجھے علم ہے
مِری جاں تو کتنی حسین ہے تجھے کیا پتا
تِرے ہاتھ پر یہ حنا نہیں مجھے علم ہے
تجھے کیا ہیں مجھ سے شکایتیں مجھے کیا خبر
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھے علم ہے
نہیں مانتا دلِ تشنہ کام تو کیا کروں
تِری زلف کالی گھٹا نہیں مجھے علم ہے
میں جلوں گا ہجر کی آگ میں یوں ہی عمر بھر
مِری اور کوئی سزا نہیں مجھے علم ہے
افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
Leave a Reply