rki.news
تبصرہ نگار
پارس کیانی
ساہیوال ،پاکستان
غزل
آنکھ جھپکے ، تو وہ ‘ ہووو ‘ کہہ کے ڈرا دیتا ہے
رات بھر جاگتے رہنے کی سزا دیتا ہے
ڈائری میں وہ مرا نام ، ورق پر لکھ کر
آخری حرف ، شرارت سے مٹا دیتا ہے
شوخ اتنا ہے ، کہ بے خوف بھری محفل میں
اپنے کہہ کر ، مرے اشعار سنا دیتا ہے
آن لائن کوئی شے ، اس کو بلانی ہو اگر
خود کے بدلے ، وہ مرے گھر کا پتہ دیتا ہے
پانی رکھنے کے بہانے ، کبھی چھت پر جا کر
سب کبوتر ، مرے پنجرے سے اُڑا دیتا ہے
کھیلتا رہتا ہے شطرنج ، بہن بھائی کے ساتھ
بن کے معصوم ، وہ دھوکا بھی کھلا دیتا ہے
یوں ، وہ مشہور قبیلے میں ہے سفاک ، سمیطٓ !
خون کردیتا ہے ، پھر ‘خون بہا ‘ دیتا ہے
🌷🌷🌷🌷🌷
یہ غزل “خواجہ ثقلین سمیطؔ” کی تخلیقی لطافت، فکری تازگی اور لسانی مہارت کی ایک دلکش مثال ہے۔ شاعر نے روزمرہ کے معمولات اور جدید زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہایت دلنشین، ظریفانہ اور کلاسیکی انداز میں پیش کیا ہے۔ بظاہر یہ غزل شوخیِ طبع، شرارت اور رومان کی ایک ہلکی پھلکی دنیا سے تعلق رکھتی ہے، مگر اس کے پسِ منظر میں انسانی نفسیات، رشتوں کی باریکی اور احساس کی گہرائی پوشیدہ ہے۔
پہلے ہی شعر میں “آنکھ جھپکے، تو وہ ‘ہووو’ کہہ کے ڈرا دیتا ہے” ایک شوخ مزاحیہ کیفیت کے ساتھ رومان کی معصومیت جھلکتی ہے۔ شاعر نے خوف اور محبت، سنجیدگی اور چنچل پن کے تضاد کو ایک ہی مصرعے میں خوبصورتی سے سمیٹا ہے۔
دوسرے شعر میں ڈائری اور نام مٹانے کی علامت ایک طرف تعلق کی یاد کو ظاہر کرتی ہے تو دوسری طرف احساسِ تمسخر اور دردِ محرومی کو بھی چھوتی ہے۔ یہ ایک لطیف نفسیاتی کیفیت ہے جسے شاعر نے ہلکے لہجے میں گہری معنویت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
تیسرے شعر میں “اپنے کہہ کر مرے اشعار سنا دیتا ہے” خفیف طنز کے پیرائے میں شاعرانہ رشک اور تخلیقی حسد کی جھلک موجود ہے۔ یہ شعر معاشرتی رویّوں کی ایک ہنر مند تصویری تشکیل ہے۔
چوتھے اور پانچویں اشعار میں آن لائن دنیا اور چھت پر پانی رکھنے جیسے جدید اور روزمرہ مناظر کو روایتی غزل کے قالب میں ڈھالنا شاعر کے عصری شعور اور جدتِ اظہار کا ثبوت ہے۔ خاص طور پر “خود کے بدلے مرے گھر کا پتہ دیتا ہے” میں محبت کی شرارت کے ساتھ اعتماد اور بے فکری کا ملا جلا احساس جھلکتا ہے۔
شطرنج اور دھوکے والا شعر انسانی چالاکی اور معصومیت کی مصنوعی اداکاری پر ایک خوبصورت تبصرہ ہے۔ اس میں زندگی کی رمزیت، کھیل کی علامت اور رشتوں کے پیچ و خم سب ایک ساتھ سمٹ آئے ہیں۔
آخری شعر میں شاعر اپنے تخلص کے ساتھ “مشہور قبیلے میں سفاک” کہہ کر ایک خود طنزیہ اور شوخ انجام تخلیق کرتا ہے۔ “خون کر دیتا ہے، پھر خون بہا دیتا ہے” میں معنی کی تہہ داری، صوتی حسن اور لسانی چابک دستی قابلِ داد ہے۔
فنی اعتبار سے یہ غزل رواں، شستہ اور محاورہ بند زبان کا عمدہ نمونہ ہے۔ ردیف و قافیہ کی پابندی کے ساتھ اشعار میں طنز، ظرافت، رومان اور عصریت کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر شعر ایک الگ منظر بناتا ہے، مگر مجموعی طور پر ایک مربوط فضا قائم رہتی ہے۔
فکری سطح پر شاعر نے انسانی تعلقات کے بدلتے رویوں، جذبات کی نرمی، اور ظرافت میں لپٹے درد کو نہایت سلیقے سے برتا ہے۔ جدید موضوعات کے ساتھ کلاسیکی لب و لہجہ برقرار رکھنا اس غزل کو ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے
Leave a Reply