rki.news
تحریر:شازیہ عالم شازی
ہر سال 24 اکتوبر کو دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کا دن (United Nations Day) منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جنگوں، نفرتوں اور تقسیم کے اس دور میں امن، رواداری اور باہمی تعاون ہی انسانیت کی بقا کی ضمانت ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کا قیام 24 اکتوبر 1945 کو دوسری عالمی جنگ کے بعد عمل میں آیا، جب دنیا کی بڑی طاقتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک ایسا عالمی ادارہ تشکیل دیا جائے جو قوموں کے درمیان مکالمے، انصاف اور امن کو فروغ دے۔
اقوامِ متحدہ کے بانی رہنماؤں فرینکلن ڈی روزویلٹ، ونسٹن چرچل، جوزف اسٹالن، ژیانگ کائی شیک، اور شارل ڈی گال نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دنیا کو مستقبل میں کسی عالمی جنگ سے بچانے کے لیے مشترکہ اقدار، انسانی حقوق، اور عالمی انصاف کی بنیاد پر ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے جو سب قوموں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ بعد ازاں نیلسن منڈیلا، کوفی عنان، بان کی مون، اور انتونیو گوتریس جیسے رہنماؤں نے اسی مشن کو جاری رکھا کہ دنیا نفرت سے نہیں، بلکہ بھائی چارے سے آگے بڑھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے حالات میں یہ اتحاد کہاں کھڑا ہے؟
دنیا اس وقت ایک بار پھر جنگوں، انتہا پسندی، ماحولیاتی تباہی، غربت اور ناانصافی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ طاقتور قومیں کمزوروں پر اپنی برتری جتانے میں مصروف ہیں، جبکہ اقوامِ متحدہ کے امن کے اصول اکثر سیاسی مفادات کے نیچے دب جاتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہے جب انسانیت کو اپنی اصل بنیادوں کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے اور وہ بنیاد ہے اسلامی تعلیمات کا پیغامِ امن و اتحاد اور بھائی چارہ۔
اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی وہ اصول عطا کیے جن پر ایک پائیدار عالمی نظام قائم ہو سکتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
(القرآن 3:103)
“اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔”
یہی آیت عالمی اتحاد کی اصل بنیاد ہے کہ انسانوں میں رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر اتحاد قائم کیا جائے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے بھی فرمایا:
“تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے سبب سے۔”
یہ تعلیمات آج بھی اقوامِ متحدہ کے بنیادی اصول برابری، انسانی وقار، اور امن سے مطابقت رکھتی ہیں اگر دنیا اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو اسلامی اخلاقیات کے زاویے سے دیکھے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے بہت پہلے ہی عالمی اخوت، معاشرتی انصاف، اور امنِ عامہ کا جو تصور دیا، وہی اقوامِ متحدہ کے وجود کی بنیاد بنا،آج کے تناظر میں، جب مشرقِ وسطیٰ سے لے کر افریقہ تک جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے، جب قومیں ایک دوسرے پر اقتصادی پابندیاں لگا کر انسانوں کو بھوک اور بے بسی میں مبتلا کر رہی ہیں تب اقوامِ متحدہ کے دن کا پیغام ایک نئی زندگی مانگتا ہے۔
دنیا کو اب محض اداروں یا قراردادوں سے نہیں، بلکہ ضمیر کی بیداری سے اتحاد درکار ہے۔اسلام کا پیغامِ سلام اسی ضمیر کی بیداری کا دوسرا نام ہے کہ انسان، انسان کے لیے آسانی بنے، اور ظلم کے بجائے انصاف کا علم اٹھائے۔
24 اکتوبر اقوامِ متحدہ کا دن ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے:
کیا ہم واقعی متحد ہیں؟ کیا ہم امن کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں یا صرف مفاد کے لیے خاموش ہیں؟
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امن کوئی نعرہ نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ اگر اقوامِ متحدہ اپنی اصل روح یعنی سلام، تعاون، انصاف اور انسانیت کے مطابق عمل کرے، اور اگر ہم سب اپنی اسلامی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کو پہچان لیں، تو دنیا ایک بار پھر روشنی، عدل اور امن کی راہ پا سکتی ہے۔
“اسلامی تعلیمات اور اقوامِ متحدہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی انسانیت کو باہم جوڑنا، اور نفرت کو ختم کرنا۔”
Leave a Reply