rki.news
عامرمُعانؔ
……….
کوئٹہ سے تقریبا 717 کلومیٹر کے فاصلے پر اور کراچی سے 160 کلو میٹر کے فاصلے پر، آپ کو ضلع لسبیلہ میں مکران کوسٹل ہائی وے کے مقام پر ہنگول نیشنل پارک میں پہاڑی سلسلے کے درمیان ایک ٹیلے پر استادہ ایک مجسمہ اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گا۔ آپ حیرت سے اسے بغور دیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آپ کو ایسا محسوس ہوگا، جیسے کوئی خاتون سر پر کیپ سجائے کسی آنے والے کے لئے محو انتظار کھڑی ہے۔ آپ اس مجسمے کو دیکھ کر قدرت کے اس حسیں شاہکار پر عش عش کر اٹھیں گے۔ بالکل یہ قدرت کا ہی شاہکار ہے، کیونکہ یہ مجسمہ کسی ماہر مجسمہ ساز کے ہاتھوں کا کمال بالکل نہیں ہے، بلکہ قدرت نے موسم کے سخت و گرم تھپیڑوں سے، اور پانی کے بہاؤ سے اس کی تراش خراش کر کے اس کو ایک مجسمے کی صورت ڈھال دیا ہے۔ ایسا کمال ڈھالا ہے کہ اس مجسمے کو دیکھتے ہی من میں ایسا احساس اجاگر ہوتا ہے کہ شاید کسی بہت ہی ماہر مجسمہ ساز نے اس کو تراشا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے اندازوں کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مجسمہ تقریبا سات سو پچاس سال پرانا ہے۔ یہ مجسمہ قدرتی طور پر ساحل لسبیلہ و مکران کے کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر اور اورماڑہ کے درمیان واقع علاقے میں اپنی موجودہ شکل میں ماحولیاتی تغیر سے وجود میں آیا ہے۔ یہ علاقہ صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے جنوب میں واقع ہے۔ ایک عرصے تک مقامی آبادی اس سلسلے میں جنات کے بسیرا کرنے پر یقین رکھتی رہی ہے، اور اس مجسمے کو جنات کی باقیات بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ مجسمہ صوبہ بلوچستان کا ایک قدرتی عجوبہ کہلائے جانے کا پورے طور پر مستحق ہے۔ کنڈ ملیر سے شروع ہونے والے اس بڑے پہاڑی سلسلے کو ’ بُذی لک ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی پہاڑی سلسلے بذی لک کے درمیان میں ایک کٹا پہاڑ بھی موجود ہے، جس پہاڑ پر موجود اس مجسمے کو صدیوں کے آندھی، طوفان اور بارشوں کے بہاؤ نے ایسی شکل دے دی ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ لسبیلہ اور گوادر کے درمیان واقع ساحلی علاقے میں موجود ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ہیرے کی قدر ایک جوہری کو ہی ہو سکتی ہے، لہذا اس مجسمے پر بھی ایک جوہری کی نظر ضرور پڑی ہو گی، جس کی آنکھ نے دیکھتے ہی اس قدرتی طور پر بننے والے مجسمے کو تلاش کر کے دنیا کو اس طرف یوں متوجہ کیا، کہ پھر حکومت بلوچستان نے بھی اس قدرتی طور پر وجود میں آنے والے مجسمے کو خطہء بلوچستان کی نشانی کے طور پر محفوظ کر دیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے نیشنل پارک، ہنگول نیشنل پارک جو اس پورے علاقے پر موجود ہے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بلوچستان کے آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوادرات یہاں محفوظ ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ مجسمہ بلوچستان میں داخل ہونے والے مہمانوں کا استقبال کر رہا ہے۔
ایک عرصے تک یہ بے نام مجسمہ ہنگول نیشنل پارک میں استادہ اپنے نام کی تلاش میں تھا، کہ ایک دن اس کی تلاش مکمل ہو گئی۔ سال 2002 میں یونائٹڈ نیشنز کی سفیر کے طور پر ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ جس میں ہنگول نیشنل پارک کا دورہ بھی شامل تھا ۔ انجلینا جولی کی نظر جیسے ہی مجسمہ پر پڑی ان کے منہ سے بےساختہ نکلا یہ تو امید کی شہزادی ہے، ‘princess of hope ‘
اور یوں اس بے نام مجسمے کو ایک ایسا نام مل گیا، جو اپنے نام کے مطابق امید کا چراغ روشن کئے ہوئے ہے۔ یہ شہزادی ہنگول نیشنل پارک میں موجود بلوچستان کے عوام کے لئے امید اور ترقی کا دیا روشن کئے ہوئے ہے۔ ایک ایسی ترقی کی امید کا چراغ جو یہاں کے باشندوں کا مقدر ہے۔ ایسی خوشحالی کی امید کا چراغ جو یہاں کے باشندوں کا نصیب ہے۔ ایک ایسی امید کا چراغ تھامے یہ شہزادی اپنی سات سو پچاس سالہ تاریخ سے یہاں کے باشندوں کو یہ سبق دے رہی ہے کہ
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
بلوچستان کی متعدد شناخت میں شامل ایک مستقل شناخت پرنسسز آف ہوپ بھی ہے۔ اس شہزادی کے شایان شان حکومت بلوچستان نے بہت سے اقدامات ضرور کئے ہیں، تاکہ قدرت کے سرد و گرم سے وجود پانے والے اس مجسمے کی مکمل طور پرحفاظت کی جائے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے، اور امید کرنی چاہئیے کہ اسی طرح حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ بلوچستان کے تمام ورثہ کو محفوظ بنانے کے اقدامات پوری تندہی سے کرتی رہے گی۔ یہ دنیا بھر میں اس خطے کی پہچان ہے، جس کے بارے میں پڑھ کر سیاح اس کو دیکھنے لسبیلہ بلوچستان میں موجود اس پہاڑی سلسلے کا رخ کرتے ہیں۔
Leave a Reply