(نثری نظم)
محمد طاہر جمیل دوحہ قطر
بات ہے دورموسیٰ کی
رھتا تھا ایک شخص
بد زبان اور بدتمیز تھا بیحد
سبھی بیزار تھے اس سے
کیا فیصلہ سب نے ایک دن
سب کی رائے تھی اسمیں شامل
گاؤں بدر کیا جائے اسکو
پنچایت نے نکال باہر کیا اسے
احساس جنگل میں ہوا اسے
کیا سبھی کرتے ہیں نفرت مجھ سے
اسقدر گناہگار وظالم ہوں میں
اسی احساس سے اشک رواں ہوئے اسکے
دل سے نکلی آہ پہنچی آسمانوں پر
لرز اٹھا جنگل آہ و بکا سن کر
رب کی رحمت جوش میں آئی
اپنے بندے کی معافی قبول فرمائی
اسی احساس ندامت میں موت نے آ گھیرا اسے
اسکی موت سے فضا ہوئی غمگین
ملا یہ حکم موسیٰ علیہ سلام کو
اعلان یہ گائوں میں کرا دیجئیے
پڑھے گا جو بھی
نماز جنازہ اس فقیر کی
قدرت سے ہوگی مغفرت ہر اس بشر کی
سن کر جمع ہوئے گاؤں کے سارے لوگ
دیکھا جو اس کا چہرہ تو
سب اس سے پر ے ہوئے
اس کمبخت کو تو ہم نے نکالا تھاگاؤں سے
ہم تو نہ جائیں گے اسکی تدفین کو
سن کرکہا یہ موسیٰ نے
یہ حکم ہے رب جلیل کا
جسکی ہم سب تخلیق ہیں
بخشا جائے گا ہر کوئی بشر
شامل جو اس کے جنازے میں ہو گیا
اللہ اس سے راضی ہو گیا ہے
قبول اس کی توبہ ہوگئی ہے
ہم کیوں کر کریں نفرت بلا وجہ اس سے
عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے
ہمیں تو کرنا ہے اس کا حکم ادا
ہمیں وہ بخش دے پھر کیا چاہئیے۔
اس لیے کہتے ہیں گناہ سے کیجیے نفرت
نہ کہ گناہ گار سے
Leave a Reply