rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
بچپن میں پڑھی جانے والی کہانی کا مختصر خلاصہ آپ سے کرتے ہوے آگے چلتے ہیں، کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک مچھیرا مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں جال پھیلاے بیٹھا ہوتا ہے, اچانک ایک سنہری مچھلی جال میں پھنس جاتی ہے، جونہی مچھیرا مچھلی کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے، مچھلی اسے کہتی ہے میں ملکہ مچھلی ہوں میرے پاس بہت سے اختیارات ہیں اگر تم مجھے چھوڑ دو گے تو تمہاری تمام خواہشات پوری ہو جاییں گی، مچھیرا چونکہ انتہائی رحمدل تھا، اس نے مچھلی کو چھوڑ دیا، اور گھر جا کے اپنی بیوی کو سارا ماجرا کہہ سنایا، مچھیرے کی بیوی بہت نک چڑھی اور خود غرض عورت تھی اس نے فرمایشوں کا ایک جہان سنہری مچھلی کے گوش گزار کر دیا، مچھیرا سمندر کے کنارے جاتا، مچھلی کو صدا لگاتا، مچھلی کنارے پہ آتی، مچھیرا اپنی خواہش کا اظہار کرتا، اور مچھیرے کی خواہش، گھر جانے تک پوری ہو چکی ہوتی، محل سے بادشاہت تک سب کچھ مچھیرے کو ملا، اور وہ سکھ چین سے رہنے لگے مگر یہ سکھ چین اور مال و دولت انسانوں کو راس کم کم ہی آتا ہے، ایک دن مچھیرے کی بیگم جو کہ اب ملکہ عالیہ بن چکی تھیں، بیدار ہویں اور محل کی بالکونی سے نیچے جھانکا تو سورج کی تیز، چمکدار کرنیں ان کی آنکھوں میں پڑیں، ملکہ عالیہ کو انتہائی ناگوار گزرا، انھوں نے حسب معمول اپنے شوہر نامدار کو طلب کیا اور حکم دیا کہ سنہری مچھلی سے کہا جاے کہ سورج کو مشرق کی بجاے مغرب سے طلوع ہونے کا حکم دیا جاے تاکہ ملکہ عالیہ کی آنکھوں کو سورج کی تیز کرنوں کی حدت سے بچایا جا سکے، بیچارے مچھیرے نے بڑی بے بسی سے اپنی بیگم کو دیکھا اور مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق سمندر کے کنارے پہنچ گیا، سنہری مچھلی ،مچھیرے کی پہلی آواز پہ ہی سمندر کے ک کنارے پہ تھی مگر جب اس نے مچھیرے کی عجیب و غریب اور بے تکی خواہش سنی تو مارے صدمے کے چند لمحے تو بیچاری گم ہی ہو گءی،مچھلی تھوڑی دیر بعد سمندر کی سطح پہ آی اور بولی وہ خداے کاینات جس کے قبضے میں ہر جاندار کی جان ہے اور جو رازق اور تقدیر کا مالک ہے وہ آزماتا ہے اور ڈھیل دیتا ہے تاکہ شکرگزاروں اور ناشکروں میں فرق کر سکے، تو آپ اللہ کی طے کردہ حدود سے باہر نکلے، اللہ پاک کے ناشکر گزار بندوں میں ہوے تو اللہ نے آپ کو دی گءی تمام نعمتیں واپس لے لیں، مچھیرا ندامت کے آنسوؤں کے ساتھ اپنی بوسیدہ جھونپڑی میں لوٹ آیا. تو کیا چیز ہے جو انسان کو جا بجا ذلیل و خوار کرواتی ہے وہ ہے انسان کے نفس کا بے جا تکبر، گھمنڈ اور غرور کہ مجھ سے بڑھ کے نہ کوی دوسرا ہے اور نہ ہو سکتا ہے، اس بیمار اور بزدلانہ سوچ نے انسان کو مختلف گروہوں اور گروپوں میں تقسیم کر دیا، اب یہ گروہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی تعریف و توصیف کرتے ہیں، دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں، انھیں نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، اور اس تو تو، میں میں کے چکر میں انسانیت نہ صرف لہو لہان ہوتی ہے بلکہ انصاف کی بھی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں، اور اس میں کے سنگھاسن پہ زیادہ تر وہ لوگ بیٹھے ہوے ہیں جن کا ذہنی توازن اتنا خراب ہے کہ انھیں حقیقت میں پاگل خانے میں ہونا چاہیے تھا. ایک دور دراز کی خاتون اسی نسلی امتیاز کا بری طرح سے شکار تھیں اور انھوں نے اس تیری میری کے گھمنڈ میں نہ صرف بھاییوں کو بھاییوں سے دور کیا بلکہ خاندانی وضع داری کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی. تو خدارا اپنے اندر پای جانے والی اس نام نہاد میں اور تکبر کو اپنے صبر و تحمل سے پس پشت ڈال دیا کریں تاکہ دنیا سے اس بے تحاشا جنگ و جدل کا خاتمہ ہو سکے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Leave a Reply