rki.news
تحریر:شازیہ عالم شازی
پاکستان کے بڑے شہروں میں اگر سہولیات کا موازنہ کیا جائے تو سندھ خصوصاً کراچی سب سے زیادہ محرومی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملکی معیشت کا انجن کہلاتا ہے، مگر سہولیات کے اعتبار سے صفر درجے پر ہے۔ نہ صاف سڑکیں، نہ نکاسیِ آب کا نظام، نہ ٹریفک کا نظم و ضبط، لیکن اس کے باوجود شہریوں کو بھاری یوٹیلٹی بلز، بلند ٹیکسوں کے بعد اب ظالمانہ چالانوں کا سامنا ہے یوں لگتا ہے جیسے کراچی کو بھوکے بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا گیا ہے
گزشتہ روز نافذ کیے گئے ای چالان سسٹم نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق نظام کے آغاز کے صرف چھ گھنٹوں میں شہریوں پر ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے سے زائد کے چالان عائد کیے گئے ایک رپورٹ کے مطابق کل 2662 چالان ہوئے جن میں اوور اسپیڈنگ پر 419، لین لائن کی خلاف ورزی پر 3، اسٹاپ لائن خلاف ورزی پر 4، سیٹ بیلٹ نہ پہننے پر 1535، ریڈ لائٹ کراس کرنے پر 166، اور بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر 507 چالان شامل تھے مزید یہ کہ کالے شیشوں پر 7، غلط پارکنگ پر 5، موبائل فون کے استعمال پر 32 اور رانگ وے ڈرائیونگ پر 3 چالان کیے گئے۔
یہ اعداد و شمار بظاہر قانون کی سختی کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ شہر میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بند سگنلز، اور جگہ جگہ کھڑے گندے پانی کے باعث اگر کوئی شہری تھوڑا سا “سیو رونگ ٹرن” لے لے تو فوراً چالان۔۔؟اگر کوئی لمبے یوٹرن کے بجائے شارٹ ٹرن لیتا ہے تاکہ پیٹرول بچا سکے تو چالان۔۔
اگر بارش کے بعد پانی جمع ہو جائے اور شہری مخالف سمت سے نکلنے پر مجبور ہو جائے تو ایک لاکھ کا چالان۔ جب سڑکیں ہی سفر کے لائق نہ ہوں، تو یہ چالان نظم و ضبط نہیں بلکہ ڈکیتی کا قانونی راستہ محسوس ہوتے ہیں حال ہی میں سندھ پولیس نے مختلف خلاف ورزیوں پر جرمانوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے “غلط سمت چلنے” یعنی wrong-way driving پر عام شہری کو ₨ 100,000 اور سرکاری گاڑیوں کو ₨ 200,000 تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلانے پر ₨ 5,000، موبائل فون کے استعمال پر ₨ 10,000، اور بھاری گاڑیوں کے لیے مختلف خلاف ورزیوں پر ₨ 20,000 تک کے چالان عائد کیے جا سکتے ہیں پہلے یہی جرمانے ₨ 500 سے ₨ 2,000 کے درمیان تھے، مگر اب ان کی رقم ایک عام مزدور کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے کراچی میں یہ سب کسی منصفانہ قانون کا نفاذ نہیں بلکہ ریونیو بڑھانے کی مہم محسوس ہوتی ہے۔
اگر حکومت واقعی شہری نظم و ضبط قائم کرنا چاہتی ہے تو پہلے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرےصاف اور ہموار سڑکیں، واضح ٹریفک نشانات، درست سگنل سسٹم، اور نکاسیِ آب کا بہتر انتظام کرے جب یہ سب میسر ہوں گے تو شہری بھی قانون کی پاسداری کریں گے۔
لیکن جب نظام ہی غیر منصفانہ ہو تو قانون بھی اعتبار کھو دیتا ہے کوئی بھی قانون اس وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ انصاف کے ساتھ نافذ ہو،
ورنہ وہ صرف اختیار والوں کے لیے لوٹ مار کا قانونی راستہ بن جاتا ہے اور کراچی آج اسی قانون کے نیچے کراہ رہا ہے
بنتِ پاکستان کے قلم سے
Leave a Reply