Today ePaper
Rahbar e Kisan International

یہ خودکشیاں نہیں، اجتماعی قتل ہے

Articles , Snippets , / Thursday, October 30th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے مذہب اسلام میں خودکشی کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اتنے واضح احکام کے باوجود آج کل تسلسل کیساتھ ایسی خبریں کیوں اخبارات و سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، جس میں عام انسان یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی جان لینے سے گریز نہیں کر رہا ہے۔ اپنی جان کا تو کہنا ہی کیا، وہ تو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے گلے کاٹنے تک سے گریز نہیں کر رہا ہے۔ سوچئے آخر انسان کی ایسی کیا مجبوری ہوتی ہے، کہ اس میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ اپنے ہی وجود کے حصے کو دو لخت کر بیٹھتا ہے؟ ایسی بہت سی خبریں اب روزانہ کی بنیاد پر چونکانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک ایس پی کی خودکشی کی خبر نے چونکا دیا ہے، کسی بےروزگار کی خودکشی کی بابت تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ روزگار کی پریشانی تھی، لیکن ایک اچھے کیریئر کے ہوتے ہوئے یوں اپنے ہاتھوں جان لینے کی آخر کیا توجیہہ دی جا سکتی ہے۔ تو ساتھ ہی اخباری صفحات پر شائع ہونے والی عام آدمی کی اپنی جان لینے کی خبر ہے، ایک کونے میں کہیں دوبچیوں کے گلے کاٹ کر خود کو مارنے کی خبر ہے، یوں لگتا ہے کہ اخبار صرف انہی خبروں کے لئے چھاپا گیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے، ویسے ویسے وہ ہر آسائش جمع کرنے کی جستجو میں اندر کے سکون سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے میں عجیب سی تنہائی گھر کرتی جا رہی ہے۔ انسان ارد گرد تمام رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی تنہائی کا دکھ کیوں جھیل رہا ہے۔ اس کو اپنے ساتھ ہنسنے والوں میں کوئی دل کے درد سمجھنے والا  مونس و غمخوار کیوں نہیں مل رہا۔ کوئی ایسا ساتھی کیوں اس کو نصیب نہیں جو اس کو اس انتہائی قدم سے روک سکے۔ معاشرے میں روز کی بنیاد پر آتی یہ خبریں اب ذہنوں کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔ بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ پرانے وقتوں میں اگر کوئی قتل بھی ہو جاتا، تو مہینوں اس کے خوف سے لوگ اس کو یاد کیا کرتے تھے۔ چہ جائیکہ خودکشی جیسا اقدام۔ وہ ایک دوسرے کو تلقین کیا کرتے تھے، کہ خون ناحق بہنے سے عذاب آ جایا کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وقت اتنا بدل گیا ہے کہ آج کل روز عذاب اترتے دیکھ کر بھی لوگ آنکھیں موندے اندھوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں آپ کے لئے امن تب تک ہی ہے، جب تک آپ معاشرے کے جبر کا خود شکار نہیں ہو جاتے۔ یہاں لوگ سکون کی تلاش میں بے سکون پھر رہے ہیں، اور کوئی بھی طبیب ان کی نبض پکڑ کر ان کی اس بیماری کا علاج بتانے سے قاصر ہے۔ دریائے فرات کے کنارے پیاسے کتے کی فکر کرنے والے حکمران قصہ پارینہ ہو چکے ہیں، اور موجودہ حکمران شاید لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول پر طرز حکمرانی قائم کئے ہوئے ہیں۔ ان کا اصول ہے کہ عوام کو روز مرہ کی ضروریات زندگی میں اتنا مصروف کر دو، اتنا پریشان کر دو، کہ ان میں یہ سوچ ہی بیدار نہ ہو پائے کہ وہ سوچ سکیں، آئین پاکستان ہر شخص کو باعزت زندگی گزارنے کا نا صرف حق دیتا ہے، بلکہ حکمرانوں کو پابند کرتا ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے عام آدمی کی زندگی سے مشکلات دور ہو سکیں۔ اب اگر ارد گرد نظر دوڑائیں تو عام زندگی میں تو سب الٹا ہو رہا ہے۔ اتنی مشکلات ہیں کہ پہلے تو بجلی ، گیس ، پانی کی سہولیات کے حصول میں زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے، اور پھر ان ناقص سہولیات کے بل ناجائز اضافے کے بوجھ کیساتھ یوں وصول کئے جاتے ہیں کہ ایک عام سفید پوش انسان کے پاس کچھ نہ ہونے پر اس زندگی سے چھٹکارہ پانے کی سوچ جڑ پکڑنے لگتی ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں ایسی کمیٹیاں کام کرتی ہیں، جن کا مقصد عام آدمی اور حکومت کے درمیان پل کا کام کرتے ہوئے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کمیٹیاں اول تو وجود ہی نہیں رکھتیں، اور اگر نام نہاد  کچھ ہیں بھی تو ان کا مقصد اپنی طرز زندگی عام آدمی کے نام پر بہتر کرنا رہ گیا ہے۔ حکومت کے وعدے اور دعوے دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت چند سال میں ملک کا نقشہ بدل دے گی، لیکن جب زمینی حقائق پر نگاہ دوڑائیں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندگی کے ڈھیر، گیس ، پانی، اور بجلی کے مسائل، بے روزگاری، جان و مال کی عدم حفاظت عام آدمی کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ عام انسان ایک ایسے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں بنیادی سہولیات برائے نام ہیں۔ ان تمام حالات سے نبردآزما ایک عام آدمی کی سوچ اس زندگی سے چھٹکارے کی طرف ہی جاتی ہے۔ وہ اپنے حالات کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے، یہ سوچ سوچ کر وہ خود کو ہی ذمہ دار ٹھہرا کر، خود کے لئے سزا تجویز کر لیتا ہے۔ ایک ایسی سزا جس کی خبر چھپتی ہے تو افسوس کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ وعدے اور قسموں کی اتنی گرد اڑائی جاتی ہے، کہ ایک عام آدمی کو کچھ سجھائی ہی نہیں دے پاتا۔ وہ اس مرنے والے کی تکلیف سے زیادہ اپنی ذاتی تکلیف کا بوجھ اٹھائے گدھے کی طرح منہ نیچے کئے، اپنی سیدھ میں چل چل کر زندگی کے باقی ایام گزارتا رہتا ہے، لیکن لب پر شکوہ نہیں لاتا۔ حکومت سے احتجاج نہیں کرتا، اور زیادہ بوجھ محسوس کرنے پر اپنی زندگی کی گاڑی الٹا کر خود بھی ایک خبر بن جاتا ہے۔ کیا صرف افسوس کرنا ہی ان جانوں کا ازالہ ہے؟ ان مرنے والوں کا خون ناحق کیا معاشرے کے عذاب میں اضافہ نہیں کرتا؟
ایسی صورتحال میں حکومت کو عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ، محلوں میں نفسیاتی کونسلنگ سینٹرز، کمیونٹی سپورٹ گروپس اور  مذہبی رہنماؤں کی مدد سے آگاہی مہم چلانی چاہیے، تاکہ انسان کی سوچ میں اپنی جان لینے کی سوچ کبھی بیدار ہی نہ ہو پائے۔ ایک بات یاد رکھیں آئین پاکستان ایک عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کی جو ذمہ داری حکمرانوں کے کاندھوں پر ڈالتا ہے، وہ آپ کے لئے نبھانی ضروری ہیں۔ وگرنہ ذہن نشین کر لیجئے کہ اللہ انسان کی زندگی تلخ کرنے کا حساب بھی برابر ہی لے گا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International