Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“ادبی منظرنامے پر نصرت یاب خان نصرت کے اسلوب کے اثرات”

Articles , Snippets , / Sunday, November 2nd, 2025

rki.news

تبصرہ : شازیہ عالم شازی
نصرت یاب خان صاحب کا شعری مجموعہ “ادھ کھلا گلاب” مطالعہ میں آئی تو اسلوب ، تہذیب، روایات کے نئے دریچے کھلے ان کی شاعری اور شخصیت دونوں ہی صاحبِ اسلوب ہیں ان کے اندر اور باہر کا انسان نفیس مشفق اور محبت کرنے والا ہے نصرت یاب خان نصرت کی شخصیت، ان کی شاعری کی طرح خاموش، گہری اور وقار میں ڈھلی ہوئی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسے شاعر ہیں جو زندگی کے شور میں نہیں بلکہ ٹھہراؤ میں اپنا اظہار تلاش کرتے ہیں ان کے ہاں اپنی شہرت کے اعلان یا نمایاں ہونے کی خواہش نہیں؛ بلکہ ایک اندرونی اعتماد اور اپنے فن سے وفاداری موجود ہے یہی خاموش وقار ان کے لہجے کا حصہ بن کر قاری تک منتقل ہوتا ہے وہ سادگی پسند، گفتگو میں نرم مزاج اور مشاہدے میں عمیق ہیں۔ ان کی گفتگو اور طرزِ حیات میں تصنع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بھی بناوٹ، لفظوں کی بھرت اور جذباتی تصنع نہیں ملتا۔ ان کا اظہار براہِ راست دل سے نکلتا اور سیدھا دل پر اثر کرتا ہے۔
نصرت کسی ایک روایت، دبستان یا رنگ کے قیدی نہیں۔ ان کے ہاں کلاسیکی شعری روایت کا احترام بھی ہے اور جدید حسیت کا شعور بھی۔ ان کے کلام میں سادہ اور رواں زبان،معنوی گہرائی، اور داخلی تجربے کا خلوص ایسا توازن پیدا کرتا ہے جو ان کی شاعری کو خصوصیت عطا کرتا ہے آج کے دور میں جہاں شاعری اکثر یا تو محض دل بہلاؤ کی زبان بن جاتی ہے یا محض نعرہ و احتجاج، وہاں نصرت کا لہجہ خاموش اور باوقار غم کا لہجہ ہے۔ ان کا غم چیختا نہیں، سمجھاتا ہے۔ ان کی محبت فریاد نہیں کرتی، نم ہوتی ہے اور دل میں ٹھہر جاتی ہے ان کے اشعار میں انسانی تجربہ کسی فلسفی یا خطیب کے انداز میں نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کے طور پر سامنے آتا ہے جس نے محبت کو جیا، رشتوں کو برتا،وقت دیکھا،جدائیاں سہیں اور پھر ان سب کے بعد بھی محبت کو اپنا سرمایہ رکھا۔
یہی ان کے اسلوب کو پائدار بناتا ہے
بالخصوص یہ مصرعے:
“کہانی مر گئی لیکن میرا کردار زندہ ہے”
اور
“بہت تھک چکا ہوں اب تو نصرت، خود اپنی زندگی کے سفر سے”
اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی شاعری خود تجربہ شدہ احساس ہے محض تخیل نہیں ادبی منظرنامے پر ان کے اسلوب کے اثرات دیرپا رہیں گے انہوں غم کو فلسفے میں نہیں، انسانی تجربے میں ڈھالا،منظر نگاری کو جذبات کی ارتعاش سے بدل دیا اور محبت کو پُراثر بنانے کے لیے شور کے بجائے قلم کی قوت استعمال کی ان کی شاعری ان لوگوں سے بات کرتی ہے جو اندر سے سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور لفظوں کے پیچھے کی خاموشی سن لیتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ یہ شاعری خواندہ اذہان کے درمیان زیادہ قدر پاتی رہے گی کیونکہ اس کی بنیاد اظہار سے زیادہ احساس اور صداقت پر ہے نصرت یاب خان نصرت نہ صرف اپنے لہجے کے امتیاز کے باعث اہم ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ انہوں نے محبت، دکھ، زندگی اور وجود کی کیفیتوں کو نرمی اور گہرائی کے ساتھ بیان کیا۔ ان کی شاعری آج بھی دل کو چھوتی ہے، اور آنے والے وقت میں مزید پختہ اور معتبر حوالہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے یہ شاعری عارضی نہیں، اثر پذیر ہے اور اثر پذیر شاعری ہی زندہ رہتی ہے ان کے منتخب اشعار جو ”ادھ کھلا گلاب” کا مکمل احاطہ تو نہیں مگر میری اس تحریر کا ماخذ ضرور ہیں
پیشِ خدمت ہیں۔۔۔
کچھ تو بتا میں کیسے مخاطب کروں تجھے میرے خدا میں کیسے مخاطب کروں تجھے
تو نے سجا دیا ہے مجھے میری روح کو
بزم فنا میں کیسے مخاطب کروں تجھے

انکھوں سے پی کے دل کی خوشی بولتی رہی
پھر یوں ہوا کہ لبوں کی ہنسی بولتی رہی
گجرے بھی اس کے ہاتھوں کے سب بولتے رہے بالوں میں جو سجی تھی کلی بولتی رہی

پھر کسی طوفان سے لڑنے سر اٹھا بیٹھے ہیں ہم لگ رہا ہے نوح کی کشتی میں آ بیٹھے ہیں ہم
کھائیں گے ہم پھر سے دھوکا ،پھر سے ٹھوکریں کھائیں گے
پھر کہیں بے باک ہو کر دل لگا بیٹھے ہیں ہم “

“کبھی گلاب کے کانٹوں پہ خون دیکھا ہے
محبتوں میں کبھی یہ جنون دیکھا ہے “

“جو انتظار وصل میں کاٹی تھی ایک رات
اُس پوری ایک رات کو پل بھر میں کہہ دیا”

” جو اپنی راہ پہ چپ چاپ ہو کے چلتا ہے
اسے کہیں بھی کوئی بدگماں نہیں ملتا”

“بن مٹھی میں لیے پھرتے ہیں جو قسمت کو
اپنی مٹھی کو کبھی وہ نہیں کھولا کرتے “

“الفاظ کا میں تاج محل بھیج رہا ہوں
اے یار تجھے تازہ غزل بھیج رہا ہوں
ممکن جو اگر ہو تو یہ دل قید میں رکھنا
اک زلف کی زنجیر کا بل بھیج رہا ہوں “

“شورش ہے ہر طرف کہ دلِ نا تواں ہے چُپ
کہرام ہے زمین پہ بپا آسماں ہے چُپ
پھولوں کا قتلِ عام ہے گشن میں ہر طرف
لاشیں پڑے ہیں پھولوں کے اور باغباں ہیں چُپ”

کہانی ختم ہونے پر انوکھا سا تماشہ ہے
کہانی مر گئی لیکن میرا کردار زندہ ہے
تعلق غیر سے ہو یا کسی اپنے سے ہو لیکن
اسے جو باندھے رکھتا ہے وہ اک سچا سا دھاگہ ہے”
“سہہ رہا ہوں دکھ بھی سارے جان کر یہ فلسفہ غم یہاں ہیں اور خوشی ہے حاشیے کی اُس طرف اس کے اور میرے علاوہ کون ہے نصّرت یہاں
اس طرف ہے جو وہی ہے حاشیے کی اُس طرف”

شہرِ الام سے گزر آیا
ایک کہرام سے گزر آیا
ابتدا تھی ابھی کہانی کی
میں تو انجام سے گزر آیا
رات آنکھوں میں کاٹ کر نصرت
عشق ابہام سے گزر آیا

“اگرچہ آگیا ہوں اُس نگر سے
مگر آیا نہیں ہے دل ادھر سے
بہت تھک چکا ہوں اب تو نصرت
خود اپنی زندگی کے سفر سے
یہ شاعری عارضی نہیں، اثر پذیر ہے اور اثر پذیر شاعری ہی زندہ رہتی ہے..


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International