rki.news
فرسودہ عدالتی رویے اور سرمایہ دارانہ سوچ نے خاندانی توازن بگاڑ دیا ہے
تحریر: طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ، ایکسپرٹ میرج بیورو انٹرنیشنل
> “جب تعلقات خودغرضی کے ترازو میں تولے جانے لگیں تو محبت، اعتماد اور انصاف سب کمزور پڑ جاتے ہیں۔”
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں خاندانی نظام تیزی سے بکھر رہا ہے۔ طلاق، جو کبھی انتہائی مجبوری میں پیش آتی تھی، اب ایک عام سماجی حقیقت بن چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ طلاق کے بعد اکثر عدالتی اور قانونی معاملات میں انصاف کے بجائے ذاتی مفاد، انتقام اور بلیک میلنگ کے رویے پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایک ایسے فرسودہ نظام کی پیداوار ہے جو سرمایہ دارانہ سوچ پر قائم ہے، جہاں رشتوں کو اخلاقیات کے بجائے مالی مفادات سے تولا جاتا ہے۔
1. الزام تراشی اور کردار کشی: طلاق کے بعد اکثر فریقین ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کر کے سماجی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل انصاف کے بجائے نفرت اور انتقام کو فروغ دیتا ہے۔
2. بچوں کی تحویل بطور ہتھیار: بچے والدین کے باہمی اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایک فریق دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بچوں سے ملنے کا حق روکتا ہے۔ یوں بچے باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیمی کی زندگی گزارتے ہیں.
3. جھوٹی شہادتیں اور عدالتی استحصال: کئی مقدمات میں جھوٹی گواہیوں یا مبالغہ آمیز بیانات سے فیصلے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف قانون بلکہ انسانی اخلاقیات کی بھی خلاف ورزی ہے۔
4. مالی دعوے اور مادی ذہنیت: جہیز، نان نفقہ اور بچوں کے خرچ کے نام پر بعض اوقات غیر حقیقی مالی دعوے کیے جاتے ہیں۔ شوہر کی آمدنی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے تاکہ بھاری رقم حاصل کی جا سکے۔ یہ طرزِ عمل مادی ذہنیت کا غماز ہے جو خاندانی رشتوں کی بنیاد کو کھوکھلا کرتا ہے۔
5. عدالتی احکامات کی خلاف ورزی: عدالت اگر بچوں کی ملاقات یا حوالگی کا حکم دیتی ہے تو اکثر اس پر عمل نہیں ہوتا۔ بیلف خالی ہاتھ واپس چلا جاتا ہے اور بچے اپنی اصل شناخت سے دور رہتے ہیں۔ یہ عمل بچوں کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
6. خفیہ شادیاں اور ذمہ داری سے راہِ فرار: کچھ معاملات میں مطلقہ خواتین خفیہ طور پر نئی شادی کر لیتی ہیں اور بچوں کو نانی نانا یا ماموں کے سپرد کر دیتی ہیں۔ یوں بچے غیر فطری ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں ان سے محبت نہیں بلکہ خدمت لی جاتی ہے۔
7. نفسیاتی اثرات — خاموش تباہی: ایسے بچے جنہیں والدین کے درمیان محبت، تحفظ اور تعلق نہیں ملتا، وہ احساسِ کمتری، غصے اور بے اعتمادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ نفسیاتی اثرات ان کے پورے کردار اور مستقبل کو متاثر کرتے ہیں۔
حل :انصاف، توازن اور اخلاقی شعور کی واپسی:
اس بگڑے ہوئے سماجی نظام کی اصلاح صرف قانون سازی سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی فکری سمت درست کرنی ہوگی۔ والدین کو اپنی انا، ضد اور انتقام کے بجائے بچوں کے مستقبل کو مقدم رکھنا چاہیے۔ عدالتوں کو ایسے کیسز میں انسانی پہلوؤں اور بچوں کے جذباتی تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ اگر ہم نے اپنی سوچ کو مادیت اور خودغرضی سے نہ نکالا تو آنے والی نسلیں صرف قانونی طور پر نہیں بلکہ جذباتی اور اخلاقی طور پر بھی یتیم رہ جائیں گی۔ بچوں کا تحفظ ہی معاشرے کے مستقبل کی ضمانت ہے۔
Leave a Reply