تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

صبح کا متمنی شاعر نسیم اشک، (دل کا موسم کے حوالے سے)

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, April 14th, 2024

تخلیق چھوٹا سا لفظ ہے مگر سمندر کی اتھاہ گہرائی رکھتا ہے ۔تخلیق کی تعریف میں شاید الفاظ کم پڑ جائیں تخلیق میں تخلیق کار کی قابلیت اور مہارت جھانکتی ہے ۔ تخلیق کا اثاثہ ایمانداری ہے اور تخلیق خود تخلیق کار کا تعارف ہے ۔ ایسے ہی ایک تخلیق کار سے روبرو کرانے کی جسارت کر رہا ہوں، جس کی عمر اور تخلیق کا تفارق، آپ کو داد وتحسین کیئے اکسائے گا۔اس تخلیق کار کا نام نسیم اشک ہے ۔نسیم اشک اسم با مسمی اور سادگی کا مجمسہ ہیں ۔ انہوں نے نثری نظموں پر مبنی کتاب “دل کا موسم” کو اردو ادب کی دنیا میں اچھال دیا ہے نتیجتاً اردو ادب کے صفحۂ قرطاس پر رائے زنی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

نثری نظم کے حوالے سے ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں سجاد ظہیر کا کہنا ہے “میرا اپنا خیال ہے کہ اصلی اور اچھی شاعری بحر ،وزن، قافیہ کی پابندی کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے اور ان کے بغیر بھی۔”

میں بھی اس رائے سے متفق ہوں۔ فن فنی خوبیوں سے پر ہو تو ادب کا آثاثہ ہوتا ہے ۔ نثری نظموں کا یہ مجموعہ ادب کی دنیا میں ایک اضافہ ہی نہیں ہوگا بلکہ نثری نظموں کے آسمان پر چھائے ہوئے بحث کے کالے بادلوں کو کم کرنے میں بھی کافی معاونت کرے گا۔بحث ایک مثبت پہلو ہے لیکن بحث کا فیصلہ ایمانداری کی خانقاہ میں ہو ،تعمیری ہو تخریبی نہیں۔ شخصیت پرستی کے بجائے ادب پرستی ہو۔

نسیم اشک کی کتاب” دل کا موسم ” سادگی ،سنجیدگی اور خاکساری کا پیکر ہے اور پشت پر آویزاں نسیم کی تصنع سے عاری تصویر سادگی بیان کر رہی ہے۔سرورق پر کتاب کے نام کے علاوہ ٹہلتے ہوئے بے شمار چھوٹے بڑے دلوں کا جمگھٹ مجموعے کے اندر چھپے نظموں کی سرگوشی کر رہا ہے ساتھ میں انیس رفیع صاحب کے بدلتے ہوئے موسم کے تیور کی پیشن گوئی کی گھن گرج بھی ہے۔

نسیم اشک کی گفتگو “اپنی بات” سے شروع ہوتی ہے “مسائل کی برسات میں بھی میں نے شاعری کی آنچ کو اپنے وجود سے ڈھکے رہا اور بجھنے نہ دیا” مستقبل کا چھلکتا ہو اشک، آنچ کی تپش نظموں پر نمایاں طور پر محسوس کی جاتی ہے۔اشک کی نظمیں ہمارے آس پاس کے روزمرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے تمام مسائل کو موضوع بنایا ہے ۔ زبان و بیان میں بلا کی سادگی اور سچائی کی آنچ کا لمس اور جابجا مفکرانہ اظہار بھی ملتا ہے۔شاعری کی خو شبو اور نغمگی ،نظمون کے دریچے سے جھانکئے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حمدیہ نظم” تیری رضا” اللہ کی وحدانیت پر ایمان کا خوبصورت اظہار ہے تو “فیصلہ ” ان اللہ علی کل شیء قدیر کی باز گشت۔۔۔چونکہ اللہ سبحان و تعالیٰ ہمارے تمام حرکات و سکنات سے با خبر ہے۔
جان لو تم /اللہ علیم ہے/للہ کلیم ہے/اللہ بشیر ہے/اللہ سمیع ہے۔
وطن کی محبت فطری ہے ۔محبت اپنے مطابق فضا چاہتی ہے شاعر کی حب الوطنی بھی امن و آشتی کا متمنی ہے۔کچلتے انسانوں کی آہ و بکا ،استحصال،جمہوریت میں آمریت،مندر مسجد کے جھگڑے شاعر کو pessimist کے بجائے optimistic بنا دیتا ہے۔حوصلے کا ایندھن سے چراغ کی لو کم ہونے کے بجاۓ بڑھتا ہے اور شاعر کی محبت ان لفظوں میں چھلک اٹھتی ہے۔ذات ،فرقہ اور زبان کی /دیواریں کرادیں/آؤ خالق ازل سے /دعا کو ہو جائیں /ہمارے وطن کو /امن کا گلستاں کردے.ننھے معصوم بچوں کا استحصال ،اسکول جانے کے بجائے کوڑے دان سے کاغز اور پلاسٹک کے ٹکڑے چنتے نظر آتے ہیں۔یہ مظلوم بچے آزادی کے ماتھے پر ایک بد نما داغ ہیں۔شاعر کو خود غرضی کی اونچی دیواریں منہدم کرنے کی آرزوئیں بھی ہیں اور امن ،بھائی چارگی کی ایک نئی صبح متمنی بھی۔

نسیم اشک نے بہت ہی سادگی سے سماجی مسائل اور روز مرہ کے سلگتے حالات کو اپنی نظموں میں پیش کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔بھوک کی شدت ایک بھوکا ہی بیان کر سکتا ہے یا ایک حساس انسان۔بھوک کے کئی اقسام ہیں ۔
بھوک تجھے بھی ہے /اور مجھے بھی/ہاں!مگر/فرق زمین و آسماں کا ہے/کمزور لوگوں کو کچلنے کی بھوک/اور مجھے/اپنے بچوں کے خالی پیٹ کو/بھرنے اور/محض دو روٹیوں کی بھوک ہے۔
غریبی اپنے ساتھ سینکڑوں الزامات لاتی ہیں۔ملک میں مزدوروں اور کسانوں کے حالات کو دیکھ کر شاعر کا قلم خون کے آنسو روتا ہے۔ان کی غیر محفوظ زندگیاں دیکھ کر شاعر اشک بار ہوتا ہے۔مٹی کی سوندھی خوشبو سے/لاشوں کی بو/کیوں آ رہی ہے/اے سرخ آسماں/یہ کھیت یا مقتل۔اپنوں کا دکھ ناقابل بیان اور ناقابل برداشت کی آنچ سے پگھلتا ہے تو زبان سے نکلتی ہے۔”تم میرے ساتھ ہو/مجھے اب/دشمن کی ضرورت نہیں.”
دکھ سکھ زندگی کے اہم جز ہیں۔انسان جب غموں کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے تو خوشی اجنبی اور بے معنی وجاتی ہے۔خوشی مکاری،ریاکاری،عیاری کے خوبصورت لبادے میں بھیس بدل بدل کر آتی ہےاس لئے خوشی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔غم کم از کم ان صفات سے پرے ہے۔غم بے وفا نہیں ہوتاآپ بیتی کو جگ بیتی بنانے والے شاعر کی نظم کے ان مصرعوں کو دیکھیں۔
میں نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا/مجھے تمہارے ساتھ جینے کی عادت ہے/اچانک اتنی خوشی /ہمیں ایک دوسرے کے لئے /اجنبی نہ کردے۔
پیار میں بدصورتی نام کی کوئی چیز نہیں ۔پیار میں پیمانے نہیں ،پیمانے ہیں تو پیار نہیں ،فریب ہے۔رشتے اگر پیار کے ستون پر کھڑا ہے تو پیار آنے والے زلزلے اور ناگہانی بحران سے بے خوف ہوتا ہے۔نظموں میں انداز بیان کی ندرت قابل دید ہے اور قابل تحسین بھی۔پیار میں نوک جھونک گلہ شکوہ ناگزیر ہیں۔”اعتراف” “وفا کی دیوی” نظمیں پیار کی بارش میں بھیگتے،عمل ردعمل کی بھینی بھینی پیار کی دھرتی سے اٹھتی نوک جھونک کی سوندھی خوشبو کیا بیان کرتی ہے۔پیش خدمت ہے۔
“تم زندگی کی رنگینیاں چاہتی تھیں/اور میں صرف تمہیں/مگر ایک دن تم بھی اعتراف کرو گی کہ تم نے میری وفاؤں کا /خون کیا ہے۔(اعتراف)
تمہارے کانوں میں ہمہ وقت/میری کھردری آواز /مصری گھولتی تھی/اور تم ان ٹوٹے لفظوں کو /سمیٹ کر تکئے کے نیچے رکھ لیتیں.(وفا کی دیوی)
نسیم اشک کی شاعری میں spontaneity ہے ۔پرواز تخیل اور اظہار کی سائشتگی نے ان کی نظموں کو تابناکی بخشی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آدمی مٹی سے بنا ہے اور مٹی میں جائے گا۔شاعرانہ اور فلسفیانہ خوشبو کا احساس کراتی ہوئی یہ نظم دیکھیں۔
قول و قرار ہے زمین سے/کہ اسے/ اس کی مٹی/واپس ملے گی/اور پھر خاک میں خاک /ہمیشہ کے لئے مل ر/فنا ہو جائے گا۔
نسیم اشک آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کے ہنر سے خوب واقف ہیں۔غموں کی جھول میں چاہے بے وفائی (دوست،محبوبہ)کا شکوہ ہو ،بہت ہی سلیقے اور سادگی سے شاعری کے لفظوں میں پرو دیتے ہیں۔ساڈگی سچ کا پیرہن ہوتا ہے۔یہ سادگی اندر ہی اندر سلگتی ہے باظاہر بے جان ،بے حس دکھائی دینے والا شخص بہ باطن سماج میں رونما ہونے والے نا انصافیوں کے آنچ میں جھلستا رہتا ہے۔آنچ تنہائی کی ساتھی بن جاتی ہے اور حوصلے میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔اچا نک ایک مرد آہن کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور صدا بن کر گونجنے لگتی ہے۔”مجھے ہار جانے کی ضد ہے /گر سچ کے بدلے سر ہے/تو پھر / بے سر ہونے کی ضد ہے”(ضد)

نسیم کی شاعری میں غالباََ ‘واہ’ کی جگہ نہیں ہے ہاں ضد،شکایت،اپناپن ،حق و باطل،انکار، انجام ،اعتبار سب ہیں مگر ‘آہ’ کے ساتھ ۔ان کی نظموں میں امیدیں ہیں ،حوصلے ہیں اور ضد بھی۔فن اور فنی نکات ادب کے کسی صنف میں موجود ہو تو صنف امر ہوجاتا ہے۔نسیم اشک کی نثری نظموں میں شاعرانہ اور مفکرانہ آمیزش بھی ہے اور مستقبل کا نیک شگون بھی۔میں نسیم اشک کے ہی ایک شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

یہ قلم زندگی ہے مری
میں نہ لکھوں تو مر جاؤں گا

سوز اختر
جگتدل، 24 پرگنہ (شمال)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International