گلشن اختر میؤ
ننکانہ صاحب
بروز محشر
جب میرا رب حالم
میرے وجود مجسم سے میری زیست بسر کا سوال کرے گا
تو میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر
اپنے عضو قلب کو دونوں ہاتھوں میں تھامے
رب ہابیل کے حضور پیش کرونگی
اور پوچھونگی اپنے رب سے
میرے مولا تو نے ہی تخت الفردوس پہ لکھا ہے
تیری رحمت تیرے غضب سے آگے نکل گئی
تیری ہی وحی زباں کا قرآن میں بیان ہے
تو نے انسان کو سب سے بہترین تخلیق کیا
تیری ہی خلق نے
اہل غزہ سے رزق سخن چھین لیا
جب ارض فلسطین پر مظلوم کے
خون کی ندیاں بہائی جارہی تھی
تو اے رب حالم
تیرے لوگوں نے اپنے دلوں سے اور ضمیر سے
نرم گوشہ نشینی کو نکال پھینکا
ارض غزہ کی درد ناک پکار پر
ضمیروں کو غفلت کی نیند سلا دیا
اہل غزہ کے بول حق پر
تیرے لوگوں کی زباں میں آبلے پڑ گئے
سنو!
سرحشر میں فلسطین کے لاشے
اپنے رب آسماں کو دیکھاؤں گی
اے رب کائنات تو دیکھ آج میرے پیکر دل کو
تو دیکھ میری ذخمی روح کے زخم کو
آج تو سن میری اشک شوئی داستان الم کو
روز حشر کو
اپنے رب آسماں کو
سب دیکھاؤں اور بتاؤں گی
تیرے ہی بندوں نے تیری ہی زمیں پر
مجھ سے تجھ ہی کو لوٹ لیا
میری سسکیوں کی پکار کو
اہل غزہ کے مظلوم کی چیخوں میں دفن کیا گیا
میری بے بسی پر میرے ہی سامنے
بھوک و پیاس سے تڑپتے ہوئے
ارض غزہ کو مظلوموں کے خون میں نہلایا گیا
ہاے خلق خدا تیری ہی عبادت گاہ سے
جیسے قرآن میں مسجد اقصٰی کے نام سے پکارا گیا ہے
جب میں تجھے سجدہ کر رہی تھی
میرا حالم دل تیری واحدنیت
کے محو میں تھا
تو سرے عام میرے سر سے آنچل کو کھینچا گیا
میرے چھوٹے بچوں کے کئی روز سے جمے ہوئے خون پر
مجھے خوف کی زنجیر میں باندھ کر ننگے پیر دوڑیا گیا
ہائے اے میرے حالم دل کے خدا
اس روز بوڑھی ماؤں کی آہ زاری پر
تیری زمیں پھٹی نہ تیرا آسماں
اور نہ غزوہ بدر کی مانند غزہ میں کوئی فرشتہ امداد کو آیا
اور نہ لشکر فیل پر ابابیلوں نے کنکر برسائے
مولا تیرے بندوں نے تیرے ہی ہوتے ہوئے
اہل فلسطین پر انسانیت کی تضحیک کی
اہل جہاں کے دل اور ضمیر سو گئے
جب اہل غزہ میں اِنسانیت کا قتل عام کیا
باخدا میں بروز محشر آپنے رب کو بتاؤں گی
کئی روز تک
اپنوں کے شہید ہوئے بے حجاب جسموں پر ماتم کیا
مولا!
میری آنکھوں کے دیپ بجھ گئے
جب میں نے
اپنوں کے خاک میں ملتے جسموں کو بغیر کفن دفن کے خاک نشین ہوتے دیکھا
اس روز میں بے بسی کی انتہا پر
زمیں کے گلے لگ کر روئی
ہائے اس روز تو
تیرا عزرائیل بھی میرے درد سے پھٹتے ہوئے دل کو,
زخموں سے چور جسم کو
زمیں بوس نہ کر سکی
سنو !
اے لوگوں
روز حشر کو میں اپنے رب آسماں کو سب درد الم سناؤں گی
اس روز میں اپنا ہاتھ عالم جہاں کی جانب کر کے
اپنے رب حاکم سے انصاف طلب کرونگی
اس روز میرا خدا کو کوئی نہ چھین سکے گا
روز حشر سب مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کا حساب ہو گا
حساب ہو گا تم سے
آسماں کو چیر دینے والی آہ زاری اور سسکیوں کا
بے بس بوڑھی ماں کی
خالی کشکول اٹھی آسماں کا
اہل غزہ کی روئے زمین کا
جب اس سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی
تو..
اہل قلم تھم گئے
اہل سخن خاموش ہو گئے
حالم دلوں پر
سختی سے گوندھا گیا خمیر چڑھا لیا
زبان کو لگام لی میرے درد کی پیچ و تاب پر
کانوں میں انگلیاں ٹھوس لی گئیں
کئی روز سے بھوکے پیاسے لبوں کی طلب سن کر
حسن داد آنکھوں کو
اہل فلسطین کے لاشے دیکھنے پر
چشم دید کو بند کر لیا گیا
اے میری چشم پوشی کے خدا
تیرے بندوں نے تیرے بندے کے ساتھ
بہت برا کیا
اس روز تمہیں عالم خدا سے کوئی نہ بچا سکے گا
بروز محشر
میں اپنے رب آسماں کو
سب بتاؤں اور دیکھاؤں گی
Leave a Reply