rki.news
ہمارے پاس بانٹنے کے لیے ہمیشہ دُکھ اور غم ہی کیوں ہوتے ہیں؟ پیار ،محبت، خوشیاں بھی تو بانٹی جا سکتی ہیں ضرورت مندوں میں راشن کھانا، ادویات بھی تو تقسیم کی جا سکتی ہیں لیکن ہم صرف دُکھ بانٹتے ہیں ،غم بانٹتے ہیں ،تکلیف اور ازیت بانٹتے ہیں، کہتے ہیں جس کے پاس جو ہوتا ہے وہ وہی بانٹتا ہے انسان بہت خود غرض، لالچی، منافق ، ناشکرا اور حاسد واقعہ ہوا ہے وہ اپنے لیے سب کچھ چاہتا ہے عزت ،محبت، دولت ،خوشی، کامیابی مگر اپنوں یا دوسروں کے لیے ناکامی، مفلسی ، اور بے بسی چاہتا ہے اور انہیں بے بس لاچار دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے ہماری محبتیں ہماری ضرورتوں کی محتاج ہو گئی ہیں بِنا ضرورت کوئی کسی سے پیار نہیں کرتا، کسی کا احساس اور خیال بھی نہیں کرتا، محبت بھی ضرورت کی محتاج بن گئی ہے آپ کو کسی سے کام ہے، کسی کی ضرورت ہے، کوئی مطلب ہے تو آپ کو اُس سے محبت بھی ہو جائے گی وہ آپ کو دنیا کا بہترین اچّھا اور خوبصورت انسان بھی لگنے لگے گا ہم منافقت کو محبت کا نام دیے رشتے جوڑتے ہیں بےدلی سے نبھائے چلے جاتے ہیں منافقت سے جیٔے چلے جاتے ہیں رشتوں میں بندھے عمر گزار دیتے ہیں زندگی بسر نہیں کرتے زندگی گزار دیتے ہیں حد یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو ماؤنٹ ایورسٹ جتنا بڑا بنا کر دوسرے یا کسی اپنے کو غلط ثابت کرنے، اس کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، نارمل لہجے میں کی گئی بات ، مہذب انداز میں پُوچھے گئے سوال اور کئے گئے اظہار ِ خیال کا جواب انتہائی درشتی ، بدتمیزی اور بے مروتی سے دے کر اس کی توہین کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ایسا کر کے وہ اپنی غلطی بھی نہیں مانتے کیونکہ وہ خود کو عقل ِ کُل گردانتے ہیں اور سامنے والا اُن کی نظر میں نکما ، نالائق ، کم عقل اور کام چور ہے تو جس انسان میں آپ کو صرف خامیاں ہی نظر آتی ہوں اس کی خوبیاں آپ کو کیسے دکھائی دے سکتی ہیں ؟
” میں” درست ہوں، ” تم” غلط ہو،
اس” میں” کے درست یا صحیح ہونے نے اچھے بھلے انسانوں کو ، رشتوں کو عزت و احترام کے مقام سے بہت نیچے گِرا دِیا ہے پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں ابلیس کی طرح اپنی اس غلط سوچ اور تضحیک آمیز روش پر ، میں نے کچھ غلط نہیں کیا جو کیا ہے تم نے کیا ہے ، یہ “میں” جب تک ” ہم ” نہیں ہو گی رشتوں میں محبت بہم نہیں ہو گی ۔ اتنے سارے عقل ِ کُل رکھنے والے درست اور صحیح انسان پھر اپنے رشتے کیوں نہیں سنبھال پاتے ؟ دوسرا اگر غلط ہے تو آپ درست طریقہ اختیار کر کے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے صورتحال بگڑنے سے بچا سکتے ہیں نا؟
مقابل کم عقل ہے تو آپ عقل سے کام لے لیں بات خراب ہونے سے قبل بنا دیں، سنوار دیں، سامنے والا بدتمیزی کر رہا ہے تو آپ تمیز کا مظاہرہ کر کے صبر و برداشت سے جھگڑا ختم کرنے کی کوشش کیجئے مگر نہیں ہم نے” میں ” صحیح ہوں” کے دائرے سے باہر نکل کر سوچنا ،دیکھنا ہی نہیں ہے اور اپنا وقت ، رشتہ اور تعلق خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو وہ خراب کر کے ہی رہنا ہے ، خود پسندی ، لالچ ، خود غرضی ہمیں دوسروں کیا اپنوں کی عزت کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی، اپنوں اور رشتوں کی اہمیت دو کوڑی کی ہوتی ہے ان کی نظروں میں بس دُنیا دکھاوے کی مجبوری میں منافقت زدہ مُسکراہٹ لبوں پر سجا کر رشتہ نہیں تعلق نبھانے کی اداکاری کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کڑوا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہر رشتہ ، ہر تعلق دل سے نہیں نبھایا جاتا ۔کچھ رشتے صرف چہروں کی مسکراہٹ تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کون کیا ہے؟
ہم خاموشی اور مسکراہٹ کے ساتھ رہے سہے سے اس رسمی تعلق یا رشتے کو دنیا داری کی خاطر نبھائے چلے جاتے ہیں بے دل ، بے روح رشتے جو کبھی ہمیں حقیقی خوشی نہیں دے سکتے ۔
کاش! ہم خود سے وابستہ رشتے اور تعلق دل اور روح سے نبھانے کے سفر پر پہلا قدم ہی رکھنے کا ارادہ کر لیں کاش!
بقول ہمارے!
خوشیاں بانٹی جا سکتی ہیں
دکھ بھی سانجھے ہو سکتے ہیں
دل کی دنیا تنگ نہ ہو تو
غیر بھی اپنے بن سکتے ہیں
حسد، بغض ،کینہ رکھنے سے رشتے کھوٹے ہو سکتے ہیں
دیر سویر تو ہو جاتی ہے لیکن جو تم کر گزرو گے کل وہ سامنے آ سکتا ہے
پھر سوچ سمجھ کر قدم ُاٹھاؤ
قلم اٹھاؤ
ہونٹ ہلاؤ
کہ سب کچھ اچّھا ہو سکتا ہے، رشتہ سچا ہو سکتا ہے
خود کو بس تم پاک رکھو اور دل کو اپنے صاف رکھّو تو
ہر رشتہ پکا ہو سکتا ہے ۔
سُباس گُل
رحیم یار خان
jazakAllah Khair 💐