Today ePaper
Rahbar e Kisan International

صحافت سے شاعری تک کا سفر علامہ میاں تنویر قادری کی شخصیت کا آئینہ

Articles , Snippets , / Friday, November 7th, 2025

rki.news

تبصرہ:شازیہ عالم شازی۔کراچی
تقدیسی ادب محض شعری اظہار نہیں بلکہ قلب و روح کی وہ لطیف واردات ہے جو زبان کو عبادت اور لفظ کو نور بنا دیتی ہے۔ حمد، نعت، سلام اور منقبت لکھنا سنجیدہ شعور، مطالعۂ قرآن، سیرتِ مصطفی ﷺ سے واقفیت اور روح کی پاکیزگی چاہتا ہے۔ یہ وہ صنف نہیں جہاں محض خیال کافی ہو، یہاں ہر لفظ عقیدہ اور ہر شعر ذمہ داری بن جاتا ہے۔ نعت کہنے والا شاعر دراصل ادبِ مصطفوی ﷺ کا نگہبان ہوتا ہے اور حمد کہنے والا شاعر ذاتِ باری تعالیٰ کے عرفان کی چڑھتی سیڑھیوں کا مسافر۔
اسی تقدیسی روایت کے روشن میناروں میں ایک معتبر اور بلند پایہ نام علامہ میاں تنویر قادریؔ کا ہے آپ کی ولادت 11 اگست 1944 کو ہوئی۔ زندگی کا ایک وافر حصہ آپ نے صحافت، ادبی خدمت اور شعر گوئی میں صرف کیا۔آپ کی شخصیت وقار، مروت، فکری استحکام اور روحانی نسبت کا حسین امتزاج ہے۔ قلم کو آپ نے ہمیشہ امانت سمجھا، خواہ وہ صحافت کا میدان ہو یا شاعری کا کلیاتِ قادری 11 کتابوں کا ایک روحانی و ادبی سرمایہ ہے آپ کی شعری وراثت کلیاتِ قادری کی صورت میں محفوظ ہے جو 11 مستقل شعری مجموعات پر مشتمل ہے جن میں
”الحمد للہ”، “مشکوٰةِ نعت”، “مشکوٰةِ مودّت” ، “تنویرِ خاطر” ، “منظومات”، ”ملی نغمات” “اعجازِ نعت” ، “تنویرِ کائنات” ،”تنویرِ شہادت”، “تنویرِ سخن”، اور قطعات و رباعیات ان کتابوں میں تقدیسی ادب پر مبنی کلام زیادہ ہے جو ان کی اسلام سے عقیدت اور مرشد کا اعجاز لگتا ہے تقدیسی ادب کے تمام مجموعات مجموعی طور پر امتِ مسلمہ کے لیے ایک روحانی میراث، ادبی دستاویز اور فکری روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں
آپ حمد میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت جُڑی بندگی اور معرفت کی عطر آگیں گہرے اعتقاد کی صورت نظر آتی ہے،قادرِ مطلق کے حضور اظہارِ عقیدت کرتے ہوئے شاعر کا قلب نہایت محتاط رہتا ہے۔ علامہ قادریؔ کی حمد میں توحید کی چمک اور نفس کی نفی دونوں نمایاں ہیں:
” بے مثل اللہ شریک ہے گویا خدا کی ذات
بندے پہ مہربان ہیں کیا کیا خدا کی ذات”
دنیا کو نامراد ہی رکھا ہے اس لیے
دنیا کو پا کے بھولے نہ بندہ خدا کی ذات”
آپ دنیا کی حقیقت، بندگی کی اصل اور خالق و مخلوق کا تعلق نہایت سادگی مگر عقیدتی وقار کے ساتھ بیان کرتے نظر آتے ہیں، اسی حمدیہ جہت میں درِ رسالت ﷺ کا وسیلہ یوں پختگی سے جلوہ گر ہے
اپنے بندے پہ تری خاص عنایت یہ ہے
ہم کہنے کو جو بخشی ہے سعادت مولا
ہم سوا تیرے کسی اور سے کب مانگتے ہیں مانگتے ہیں بہ وسیلہ رسالت مولا”
یہ اشعار ہمیں باور کراتے ہیں کہ ان کی شاعری میں علمِ اعتقاد اور عشق دونوں باہم مربوط ہیں۔
اگر نعتِ رسول ﷺ دیکھیں تو عشق، آداب اور معرفت کا حسین امتزاج نظر آتی ہے،علامہ میاں تنویر قادریؔ کی نعت جذباتی جوش نہیں بلکہ عاشقانہ وقار رکھتی ہے۔ وہ مدح کہتے ہیں مگر احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے:
”یہ جو سرکار کی بعثت ہے، یہ اکرامِ احد ہے
بڑی رحمت بڑی نعمت بڑا احسانِ صمد ہے”
” جو دل فدائے نامِ رسالت ماب ہے
واللہ وہ بامراد ہے، وہ کامیاب ہے”
اور محبوبِ خدا ﷺ کی نسبت سے دل پر نازل ہونے والی روشنی کی کیفیت ملاحظہ ہو:
”روشنی دیتی ہیں قرآن کی آیات مجھے
پھر عطا ہوتی ہے سرکار کی ایک نعت مجھے”
میرے سرکار کے لہجے میں خدا بولتا ہے
پیاری سرکار کی لگتی ہے ہر ایک بات مجھے”
وہ الہام کی واردات کو محض بیان نہیں کرتے بلکہ اسے محسوس بھی کرواتے ہیں۔۔
تقدیسی ادب کے سلسلے کی ان کی ایک مکمل کتاب “تنویرِ مودّت” ہے جسے محبتِ اہلِ بیتؑ کا مینارہ کہا جائے تو بےجانہ ہوگا،اہلِ بیتؑ کی محبت شاعر کے دل کا مستقل سرمایہ ہے اس کتاب حضرت علی سے امام حسینؑ تک وہ تمام اہلِ بیت کے فضائل اور مصائب کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں کربلا کا بیان ان کے ہاں غم نہیں، عزت اور فتح کا اعلان ہے:
“وہ غلط سمجھے جو سمجھے ہیں کہ ہارے ہیں حسین
بخدا چرخِ شجاعت کے ستارے ہیں حسین
ہم نہیں مانتے کربل میں کہ ہارے ہیں حسین
جبکہ وہ فاتحِ خیبر کے دلارے ہیں حسین”
اس طرب کے بہت سے اشعار ان کے علم، تاریخ اور عشق کی ہم آہنگی کو نمایاں کرتے ہیں۔
ہم اگر ان کے ملی نغمات کو پڑھتے ہیں تو وہ وطن کی محبت سے اتنا ہی سرشار نظر آتے ہیں جتنا کہ اسلامی اقدار سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر اردو کی کلاسکی شاعری کو پڑھنا ہو تو “تنویرِ خاطر” غزل کا جمال اور کلاسیکی آہنگ اور ترنم سے لبریز ، روایتی تہذیب اور جدید احساس کے ساتھ رواں نظر آتی ہے
“تارے گن گن کے گزارے ہیں زمانے کتنے
ہو گئے خواب مرے خواب سہانے کتنے”
“میں تماشہ نہ بنوں آپ کی تشہیر نہ ہو
خوابِ وحشت کہیں شرمندہ تعبیر نہ ہو”
“کس کو سنائیں اپنی تباہی کی داستاں
اپنا ہے کون تیرے سوا تیرے شہر میں”
ان کے شعری اسلوب میں اسلاف کی روایات سے جڑی عقیدت بدرجہ اتم موجود یعنی وہ اسلاف کی روایات کو ترک تو کرتے مگر اس میں جدت اور نئے مضامین سمو غزل کو ایک نیا پیراہن بخشتے ہیں ان غزلیں بتاتی ہیں کہ شاعر محض تقدیسی شاعر نہیں ایک مکمل شاعر ہیں جسے ہر صنفِ ادب میں اظہاریہ کا کلیہ معلوم ہے، علامہ میاں تنویر قادریؔ کی شاعری دل کو روشن، نگاہ کو بیدار اور روح کو معطر کرتی ہے۔
ان کی کلیات کا صفحہ الٹتے جائیں اور ایک روح پرور روحانی سفر پر نکل جائیں۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International