rki.news
تحریر: احسن انصاری
ہر سال 9 نومبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں علم و ادب کے چاہنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا 148واں یوم پیدائش عقیدت و احترام کے ساتھ منا رہے ہیں۔ اقبال مشرق کے عظیم شاعر، مفکر، فلسفی، مصلح اور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سمیت پوری امتِ مسلمہ کو ایک نئی فکری سمت عطا کی۔1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفہ کے ذریعے مسلمانوں کے اندر خودی، بیداری، اور خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا۔
اقبال کا مرکزی فلسفہ ’’خودی‘‘ کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ یعنی انسان اپنے اندر کی قوت کو پہچانے اور اسے خدا کی رضا کے مطابق نکھارے۔ اقبال کے نزدیک خودی غرور نہیں بلکہ شعورِ ذات، خود آگاہی، عزتِ نفس، اور اپنے مقصدِ حیات کا ادراک ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قوموں کی ترقی کا دار و مدار مادی وسائل پر نہیں بلکہ کردار، ایمان، اور اخلاقی قوت پر ہوتا ہے۔
اقبال قرآنِ حکیم سے گہری روحانی وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں قرآن کے پیغام کی جھلک نمایاں ہے۔ وہ مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور علمی و فکری عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا پیغام عالمگیر ہے۔ انسانیت کو بیداری، عدل، علم، اور خود اعتمادی کی طرف بلاتا ہے۔
اقبال نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی اور ان کا کلام فکری گہرائی اور روحانی پیغام کے باعث آج بھی زندہ ہے۔ بانگِ درا، ضربِ کلیم، اور بالِ جبریل جیسی تصانیف میں اقبال کے انقلابی خیالات اور ایمانی جوش نمایاں ہے، جبکہ اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی جیسی فارسی مثنویاں فلسفیانہ بصیرت کا شاہکار ہیں۔
اقبال کو بجا طور پر “شاعرِ مشرق” کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کی شاعری نے مشرقی دنیا کی روحانی اور فکری ترجمانی کی۔ ان کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جو عزت، خود شناسی اور اخلاقی بلندی کی دعوت دیتا ہے۔
اقبال کی سب سے بڑی خدمات میں سے ایک پاکستان کے تصور کی پیشکش ہے۔ انہوں نے 1930ء کے الہ آباد خطبہ میں یہ واضح کیا کہ برصغیر کے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، جنہیں اپنی تہذیب، مذہب اور اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ مملکت کی ضرورت ہے۔اگرچہ وہ 1938ء میں وفات پا گئے، مگر ان کے خیالات نے تحریکِ پاکستان کی فکری بنیاد فراہم کی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اقبال کے وژن کو اپنی جدوجہد کا فکری رہنما تسلیم کیا۔
علامہ اقبال کا اثر صرف برصغیر تک محدود نہیں۔ ان کی شاعری اور فلسفہ دنیا بھر میں اسلامی فکر، خودی، اور روحانی بیداری کا ذریعہ بنے۔ آج کے دور میں جب دنیا اخلاقی زوال، بے یقینی، اور انتشار کا شکار ہے، اقبال کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ان کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قومیں دولت سے نہیں بلکہ کردار سے بنتی ہیں، اور ہر نسل کو اپنے مقصدِ حیات کو ایمان اور علم کی روشنی میں دوبارہ دریافت کرنا چاہیے۔
علامہ اقبال کی 148واں یوم پیدائش کے موقع پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ صرف ان کی شاعری پڑھنا نہیں بلکہ ان کے فلسفے پر عمل کرنا ہے۔ ان کے اشعار ہمیں حرکت، عمل، اور خود آگاہی کی دعوت دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں میں علم، ایمان، اور کردار کی بنیاد پر بیداری پیدا کرنی چاہیے۔
اقبال کا لازوال شعر آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔
یہ اشعار ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ انسان اپنی خودی، ایمان، اور جدوجہد سے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔
علامہ اقبال کی زندگی، شاعری اور تعلیمات ہمیشہ رہنمائی کا سرچشمہ رہیں گی۔ ان کا پیغام ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اصل قوت ہمارے اندر موجود ہے۔ ایمان، اتحاد اور اخلاق کے ساتھ ہم اپنا مستقبل
Leave a Reply