rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
معلوم نہیں ہر شخص جس کی دو ٹانگیں، دو بازو،ایک سر، دو آنکھیں، دو کان،ایک ناک اور قینچی کی طرح چلتی ہوی فر فر زبان ہو، کیوں خود کو عقل کل سمجھتا ہے؟ شاید اس دو پیروں پہ چلنے والے کی اوقات ہی اتنی ہے، ارے نہیں، اوقات تو بہت زیادہ ہے اسے اللہ پاک، تخلیق کار نے فرشتوں سے سجدہ کروایا، اسے اپنا خلیفہ بنایا، اسے اپنی فطرت پہ پیدا کیا، اسے ایسا ایسا علم عطا کیا کہ قدرتی مناظر سے رنگی ہوی اس دنیا کو انسان نے اپنی قابلیت سے اتنا گل و گلزار کر دیا کہ دنیا جنت جیسی حسین وادی ہی دکھنے لگی، اگر بیماری، دکھ، غربت جیسی کٹھنایوں کا ساتھ نہ ہوتا اور اونچ نیچ کے حسابی پھندے نہ ہوتے اور موت جیسی اٹل اور ظالم بندش نہ ہوتی تو پھر آپ اور میں دیکھتے کہ اس جیون کے نظارے کیا ہوتے، امیر اور صاحب حیثیت کبھی مرتے نہ اور غریب اور بخت ہارے کبھی جی نہ پاتے،لیکن وہ کیا ہے ناں کہ قسمت کی لکیریں بنانے والے نے انسانوں کی تقدیر بھی اپنے ہاتھ میں رکھی اور ان کے قسمت کے ہیر پھیر بھی، تو پھر بھلے منظور جولاہا ہو یا شاہ لمبردار، کوی سر جھکا کے گلیوں میں سے گزرے یا مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے، کوی الہامی کتابوں کی پیروی کرتے ہوے زندگی بتا دے یا پھر شیطان کا چیلا بنتے ہوے، نیت ہی کاحساب کتاب ہونا ہے، اور ایل ایمان اور صراط مستقیم پر چلنے والے شدت سے روز حشر کے منتظر ہیں، جب اللہ کا دربار سجے گا، جب دکھاوے کرنے والوں کے منہ پہ ان کا دکھاوا مار دیا جاے گا، جب بچے اپنی ماوں کے نام سے پکارے جائیں گے، جب ظالم. دھتکار جایں گے اور مظلوموں کی داد رسی ہو گی، میں فتح جنگ، معمولی موچی، جس کی اپنی کوئی اوقات ہی نہیں، جس کے ہاتھ گاوں والوں کے جوتے سی سی کر سیاہ ہو چکے ہیں، ہاتھوں کی لکیریں، خوشیوں کی تلاش میں مدھم ہو چکی ہیں، لیکن کون کہتا ہے کہ میں خوشیوں کی تلاش میں ہوں ارے خوشی تو میری روح کی گہری سہیلی ہے،میں تہجد گزار، پانچ وقت کا نمازی، روکھی سوکھی کھا کے بھی اللہ کا شکر ادا کرنے والا، جس کی خواہشات کی گٹھری کا وزن تو نہ ہونے کے برابر ہی ہے، کل پنڈ کے چوہدری صاحب کے چھوٹے بیٹے کی شادی ہے وہ اپنا بارات کا کھسہ مجھ سے سلوا کے خواہ مخواہ ہی کھسہ پہن کے اتراتا پھرتا ہے، کیوں نہ اتراے جی کھسے میں سونے کے تار جو لگے ہیں، اس کا لباس بھی سونے کے تاروں سے جڑا ہے، وہ بار بار مجھے بتاتا جاتا ہے کہ چاچا تمہیں کیا پتا ہو کہ جینا کسے کہتے ہیں؟ ، دولت کے ہنڈولے میں جھولے کیسے لیتے ہیں؟ ، عیاشی کیسے کرتے ہیں؟ منہ میں سونے کا نوالہ کیسے ڈالتے ہیں؟ امیر اپنی آن بان اور شان کو قایم دایم رکھنے کے لیے کیسے غریبوں کے منہ سے ان کا آخری نوالہ بھی چھین لیتے ہیں،؟ یہ آخری نوالہ چھین لینے والی منطق بھی حلق سے نیچے نہیں اترتی، مگر پھر بھی اللہ پاک کی کاینات میں نوالہ چھیننے والے ہی حکمران ہیں اور حکمران رہیں گے، خیر چوہدریوں کے چھوٹے بیٹے نے مجھے بہت لالچ دیا، سمجھایا کہ چاچا تیری عمر گزر گءی گاوں کے لوگوں کے جوتے بناتے، سیتے، مرمت کرتے، تو کیا ملا تمہیں وہی دو وقت کی روٹی، تن کے دو کپڑے اور رہنے کو ایک چھوٹا سا مکان، میں فتح جنگ، ذات کا کمی، موچی، میری اوقات اللہ پاک نے صرف اتنی ہی رکھی ہے کہ لوگوں کے پیروں سے شروع ہو کر لوگوں کے پیروں میں ہی ختم ہو جاتی ہے، مجھے اپنی اس اوقات سے بھی پیار ہے مجھے اپنے ہنر سے بھی پیار ہے، مجھے اپنے دو وقت کی ملنےوالی روکھی سوکھی روٹی پہ بھی اللہ پاک سے کوی شکوہ نہیں، مجھے اس بات سے بھی کچھ لینا دینا نہیں کہ میری آنے والی نسلیں بھی موچی ہی کے پیشے سے وابستہ ہوں گی، بھءی جب مجھے کوی اعتراض نہیں اپنے رہنے سہنے پہ اپنی حیثیت اوقات پہ تو لوگوں کو کیا مسءلہ ہے وہ مجھ کم عقل، کم ذات، گناہگار کو کیوں ماڈرن زندگی کی جھلک دکھلا کر رہنے سہنے کے آلودہ طریقے نہ صرف سکھانے پہ بضد ہیں بلکہ وہ بھی. مجھے اپنے ہی رنگ میں رنگ کے بھوکے کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں کے گروہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور میں انھیں رو رو دوہاییاں دیتا ہوں کہ خدارا مجھے میرے ہی ڈھنگ سے جینے دو مجھے اپنے رہن سہن کے ڈھنگ نہ سکھاو.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. Naureen 1@cloud.com
Leave a Reply