تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ماموں

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Friday, February 17th, 2023

از قلم: محمد قیوم راجپوت

تمام ہم عمر لوگ ان کو ماموں کے نام سے ہی جانتے تھے۔ وہ ایک منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے۔ ہر کسی سے شائستگی اور خوش طبعی سے پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔ ہمارے حلقہ احباب میں ان کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ بہت سے بزرگ لوگ اور ہم جس وقت اکٹھے ہوتے تو عموماً بہت سی سماجی باتیں زیرِ بحث ہوتیں۔ باہر ڈیرے پہ بزرگوں کی محفل کسی زاویہ کی طرح لگی ہوتی۔ یہ ہمیشہ بزرگوں کی باتوں کو غور سے سنتے ، بعض اوقات موڈ میں ہوتے تو اپنی آراء بھی پیش کر دیتے۔ سردیوں کا موسم تھا اور ہم دو تین ہم عمر لوگ ان کے پاس موجود تھے۔ عموماً بزرگ چھٹیوں پہ ہوتے تو ہی ہم ان سے ذرا فری ہو کر بات چیت کر لیتے۔ مگر اخلاقیات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر۔ بچپن سے ایک ہی سوال میرے ذہن میں طنز کے تیر چلا رہا تھا کہ آخر کار یہ ” ماموں” کیوں کہلاتے ہیں۔ میں نے ایک دن جھجھکتے جھجکتے استفسار کر یں لیا اور بڑے ادب و احترام سے گویا ہوا کہ” یار ماموں ایک سوال میرے دل میں چٹکیاں لے رہا ہے “
کہنے لگے “یار دیکھ تجھ سے دوستی اور قسم کی ہے تو پوچھ لے”.
میں نے کہا کہ”سوال ذرا سا پچیدہ ہے شاید آپ برا مان جائیں۔”
کہنے لگے ” نہیں تو ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ برا نہیں مانوں گا مگر کچھ کہو تو”
میں نے کہا” ہم اور ہمارے ہم عمر لوگ آپ کو ماموں کیوں کہتے ہیں؟ اور سب سے پہلے یہ لفظ کس نے استعمال کیا تھا آپ کیلئے؟ “
میں نے گویا دو مشکل ترین سوالات کی بوچھاڑ ہی کر دی۔
کہنے لگے” یہ تو آپ سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسا کیوں کہتے ہیں”
میں فوراً ان کے لہجہ کی نزاکت کو بھانپ گیا اور پہلو بدل کر کہا ” ویسے آپ کو کبھی محبت ہوئی ہے؟”
یک دم ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا جیسے ناجانے کب یہ حادثہ رونما ہوا تھا اور اس حادثے میں لگے ہوئے گھاؤ ان کے جسم میں آج بھی موجود ہوں اور میں نے ان سے اس بابت پوچھ کر ان کے اس زخم پہ نمک چھڑک دیا ہو۔
کہنے لگے، “یار طویل داستان ہے۔”
میں نے کہا” چلیں کچھ تو بتائیں۔”
کہنے لگے ” میں یہ چاہتا ہوں کہ تم جس درد اور محبت سے مجھ سے پوچھ رہے ہو، میں تمہیں اس عظیم سانحے کی تحقیقات کیلئے جائے وقوعہ دکھانا چاہوں گا، تاکہ تم بذاتِ خود اس تاریخی حقیقت کو دیکھ کر اس کے پروان چڑھنے اور اترنے کا اندازہ کر سکو۔ اور مجھے امید ہے کہ تم جیسا انسان اتنے برس بیت جانے کے بعد بھی، جائے وقوعہ کو دیکھ کر اصل واقعہ تک جانے کیلئے، سیڑھیاں قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے”۔
میں نے کہا” تو جائے وقوعہ کہاں ہے؟
کہنے لگے” کہ کل اتوار ہے۔ تم میرے ساتھ چلو گے۔ “

میں نے ہامی بھرلی۔
وقتِ مقررہ پر میں گھر سے نکلا، وہ مجھے لینے پہلے ہی پہنچ چکے تھے، ہم دونوں بائیک کے ذریعے سیالکوٹ شہر کی حدوں کو چھونے لگے۔
سیالکوٹ شہر سے باہر کی طرف “شفیع کا بھٹہ” نامی ایک مقام ہے وہاں سے چند میل دور ہی ماموں صاحب کا ” کیس ” نامی گاؤں واقع ہے۔ جب ہمارا رخ اس گاؤں کی طرف تھا تو میری پراسرار نظر کسی نہ کسی سراغ کی تلاش میں ہی تھی۔ اچانک درختوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ساتھ ہی باغات وغیرہ بھی۔
غرض کہ بہت ہی خوبصورت گاؤں۔
ان درختوں اور باغات کی طرف دیکھ کر ماموں صاحب ذرا روہانسے ہو گئے۔ تہہ کی بات میں سمجھ چکا تھا کہ ان درختوں پہ پرندوں کی چہچہاہٹ اور فضا کی گدگدی اس بات کی عینی شاہد ہے کہ اس نے ایک محبت کو شروع ہوتے ہوئے، پروان چڑھتے ہوئے ، یہاں تک کہ ختم ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
اب کہ شاید داستانِ حسرت شروع ہونے کو تھی۔ ” میں مڈل سکول میں پڑھ رہا تھا ۔ سائیکل پہ سکول آیا جایا کرتا۔ ان دنوں ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی شفٹ ہوئی۔ بیت اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک لوگ، اور انتہائی نفاست پسند۔ سکول سے واپسی پر میں اکثر سائیکل پہ آوارہ گردی کرتا رہتا اور یہ آوارگی سرِ شام ختم ہوتی۔ اس فیملی کو شفٹ ہوئے تیسرا دن تھا کہ میرا بھی وہاں سے گزر ہوا۔ اچانک میری نظر گلی میں سے گزرتی ہوئی ایک نقاب پوش دوشیزہ پر پڑی۔ میں اسے دیکھنے کیلئے ذرا سا رک گیا ۔ اور میری نظریں اس کے نقاب پہ جمی رہ گئیں۔ کہ جیسے نظریں ، حجاب ہٹائے جانے کا شدت سے انتظار کر رہی ہوں۔ گلی میں اور کوئی بھی نہیں تھا۔ میرا دل زور زور سے یوں دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی نقاب پوش کی نظر میری طرف اٹھے گی اور میرا سینہ چاک ہو جائے گا۔ اور سینے کے چاک ہو جانے کی سب سے بڑی وجہ تو ان ارمانوں بھرے دل کا نکلنا ہی تھا کہ جس سے ایک نقاب پوش کا حجاب برداشت نہیں ہو سکا۔ مگر اس نقاب پوش کی نظریں شرم و حیا کا پیکر بنی ، مسلسل جھکی ہوئیں تھیں۔ ویسے حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر حجاب ہٹ جاتا تو کیا ہوتا۔
مگر سامنے سے مجھے کوئی مثبت علامت نظر نہ آئی۔ ساری رات تذبذب میں ہی گزر گئی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اور دل اس نقاب پوش کے نقاب کو ہٹا ہٹا کر مختلف خوبصورت ترین شکلیں دکھا رہا تھا۔ کروٹیں بدل بدل کر رات بیتائی۔ ویسے بھی آنکھ لگ جانے کے بعد انکھ کہاں لگتی ہوتی ہے۔
جیسے تیسے رات گزری ، مگر بہت ہی مشکل، صبح ہوئی، کیسی صبح تھی، میں جلدی سے تیار ہو کر سکول جانے لگا۔ جلدی بھی ایسی تھی کہ ناشتہ بھی بھول گیا۔ پہلے سکول جانے کا نام سے کتراتا تھا مگر اس دن بہت جلدی میں تھا۔ جلدی بھی اصل میں صرف گھر سے نکلنے کی ہی تھی۔ خوب بن ٹھن کر پھر اسی گلی میں آ گیا کہ جس کی وجہ سے کھانا پینا اور سونا منقطع ہو گیا تھا۔ سخت بے چینی، سخت انتظار ۔ اس دن وہ عربی مقولہ سچا ثابت ہوا کہ” انتظار نصف موت ہے”۔ عموماً ہماری بے چینی ہمارے لیئے کسی راہ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ جب اضطراب مزید بڑھا، تو ان کا دروازہ کھلا۔ میں تو نجانے کب سے محوِ خیالِ جاناں تھا اور وہاں ان کے دروازے پہ کوئی مانگنے والا صدا لگا رہا تھا ۔ دروازہ ایک دم کی جنبش سے کھلا۔ اور وہی دوشیزہ بغیر حجاب کے اس مانگنے والے کو کوئی چیز عطا کرنے آئی ۔ اب تو جلوہء جانانہ کی ہیبت میری برداشت سے باہر ہو گئی۔ اس نے صرف ایک اچٹتی ہوئی نظر سے مجھے دیکھا اور دروازہ بند کر دیا۔ میں دیر تک دروازے کو دیکھتا رہا۔ ظاہری آنکھوں کے سامنے تو اس کا گھر تھا مگر باطنی آنکھوں کے سامنے وہ جلوہء ہمدم۔ یونہی دن اور راتیں گزرتی رہیں اور ان بدلتے دنوں کے ساتھ ساتھ میرا اضطراب مزید بڑھتا چلا گیا۔ وہ دروازہ عشق کی بہشت میں باب الریان سے کم نہیں ۔اور میں اس دروازے کا داروغہ بن گیا۔ ایسا داروغہ کہ جس کی ڈیوٹی صبح اسکول جاتے سمے شروع ہوتی اور سرِ شام ختم ہوتی۔کچھی کبھی حسن کو عشق پہ ترس تو آ ہی جاتا ہے۔ ایک دن میں حسبِ معمول اپنی ڈیوٹی پہ کھڑا تھا کہ مکان کی منڈیر سے مجھے وہی دوشیزہ دکھائی دی کہ جس کی وجہ سے ایک اچھا بھلا انسان عاشقِ نامراد بن بیٹھا۔ اس نے زیرِ لب مسکرا کر مجھے مکان کے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ اب اس طرح کے اشارے یا انڈیکیٹرز اور ان کے تراجم بھلا کسی عاشق سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ بہرحال میں مکان میں داخل ہوا تو سیڑھیوں کے پاس ہی وہ دوشیزہ کھڑی زیرِ لب مسکرا رہی تھی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی” یہاں باہر کیوں کھڑے رہتے ہو” اب محب تو چاہتا ہی یہی ہوتا ہے کہ محبوب کوئی بات پوچھے ، اور پھر میں اسے اپنا حالِ دل کہہ دوں۔ وگرنہ اس سے پہلے تو میں اسی بات پہ اکتفاء کیئے ہوئے تھا جو کہ میں ایک شعر کی صورت میں پڑھ چکا تھا کہ’
جرم تو تب ہو کہ حالِ دل کہیں کسی سے
کسی کو چاہتے رہنا کوئی خطا تو نہیں ہے
اب میں نے داستانِ محبت کہنا شروع کر دی ۔ میری تمنا اور جذبات کی بے انتہا قدر کی گئی۔ اور مجھے فوراً مثبت علامات نظر آنا شروع ہو گئیں۔ جو کہ میرے عشق اور میرے اپنے لیئے تقویت کا باعث بن سکتی تھیں۔
پھر یوں یہ ایک طرفہ محبت، دوطرفہ تعلقات میں بدل گئی۔ اور ایسی کہ چین اور اطمینان تو پھر بھی نہ آ سکا۔ خفیہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ یہ ہمارے گاؤں کے باغات اور یہ آموں کے تناور درخت ہماری اس محبت کے عینی شاہد ہیں۔ اور یہ وہ درخت ہیں کہ جن کے سائے تلے ہماری ملاقاتیں ہوتیں یا یوں کہہ لیں کہ مجھے دیدار نصیب ہوتا۔میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر خط لکھا کرتا ۔ اچھے اچھے کپڑے پہن کر اس گلی میں جاتا۔ ایک دوکان والے کو خط پکڑا دیتا، جو کسی طفل کے ہاتھوں میرا یہ نوازش نامہ منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا اور معقول رقم لیتا اس کارِ خیر کیلئے اور اضافی چارجز اس بات کہ لاگو ہوتے کہ یہ رازِ محبت کسی کے سامنے طشت از بام نہیں ہو گا۔ “
میں نے اتنی طویل داستان سن کر کہا” محترم مگر اس لازوال محبت کا…


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International