Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کچھوے کی چال اور پاکستان پوسٹ

Articles , Snippets , / Wednesday, November 12th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور جدید کی جامع خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہر کام کا پہلے سے تیز اور کم وقت میں ہونا بھی ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں رابطے سمٹ گئے ہیں۔ پیغامات موبائل کی ایک اسکرین سے دوسری اسکرین تک چند سیکنڈوں میں پہنچ رہے ہیں۔ انسان اس رفتار کو بھی سست سمجھتے ہوئے برق کی رفتار سے بھی تیز کارہائے نمایاں انجام دینے کی تدابیر کر رہا ہے۔ اب سست روی کی کسی گنجائش کا قصدا کوئی ارادہ انسان کے ذہن میں نہیں ہے، لیکن اس ترقی یافتہ دور میں بھی پاکستان میں کئی سرکاری ادارے ایسے ہیں جو بچپن میں پڑھی کچھوے اور خرگوش کی کہانی پر اس درجہ یقین کامل رکھتے ہیں کہ خود کو کچھوا ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ ادارے شاید اپنی آنکھیں تک بند کئے بیٹھے ہیں۔ ان کو اپنے ارد گرد خرگوش کی رفتار سے دوڑتے پرائیوٹ اداروں سے وابستہ مدمقابل تک نظر نہیں آ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان تو عوام سے اپیل کرتی رہتی ہے کہ اپنے اداروں پر اعتماد کیجئیے۔ پرائیویٹ اداروں کے بجائے سرکاری اداروں سے اپنے کام کروائیں، لیکن سرکار عوام کو اس طرف راغب کرنے کی صرف زبانی کوشش ہی کر رہی ہے۔ دفاتر میں موجود اپنے سرکاری میزبانوں کو ترغیب نہیں دے پا رہی کہ جناب اس ترقی یافتہ دور میں آپ اپنی رفتار میں اس حد تک تو اضافہ کر لیں، کہ عوام آپ کی کارکردگی کو دیکھ کر یہ یقین کر سکیں، کہ ان کی میزبانی سے خوشگوار احساسات کی فضاء قائم ہو پائے گی۔ ایسا ہی ایک ادارہ پاکستان پوسٹ بھی ہے۔ جو اس ترقی یافتہ دور میں کچھوے کی چال سے چلتے ہوئے نادانستہ طور پر پرائیویٹ خرگوشوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب مقابل اگلے دن آپ کی ڈاک پہنچانے کے دعویدار ہیں۔ آپ کی ڈاک کی حفاظت کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔ پاکستان پوسٹ مقررہ وقت پر بھی آپ کی ڈاک نہ پہنچانے کا الارم بجا رہا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کا ہر ادارہ کسٹمرز کئیر کے اصولوں پر کام کرتا ہے۔ ان کو ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ پاکستانی سرکاری ادارے کسٹمرز سے ایسے مخاطب ہوتے ہیں، جیسے وہ یہاں عوامی خدمت کے لئے نہیں بلکہ عوام کے اوپر احسان عظیم کرنے کے لئے بھرتی کئے گئے ہوں۔
کچھ ماہ پہلے ہم نے ذاتی طور پر بھی پاکستان پوسٹ کی کارکردگی کا تلخ تجربہ حاصل کیا۔ ہمیں ایک لفافہ بھجوانا تھا
ہمارے دل میں حب الوطنی کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ سوچا پہلا حق اپنی سرکار کا ہے۔ لہٰذا ہم کو اس کے لئے سرکار کے قائم ادارے کا رخ ہی کرنا چاہئیے۔ سو ہم پہنچے اپنی سرکاری پاکستان پوسٹ کی عمارت۔ اندر قدم رکھتے ہی ہم کو اندر کا ماحول دیکھ کر احساس ہوا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے سرکاری دفاتر کا ماحول کسی کباڑیے کی دکان جیسا ہی ہے۔ سامان اور ڈاک مختلف ڈیسک پر بکھری پڑی ہمارا منہ چڑا رہی تھیں۔ ترتیب اور تنظیم کا فقدان تھا۔ سرکاری میزبانوں کی خوش گپیوں کا دور چل رہا تھا، اور کسی بھی کسٹمر کو دیکھ کر ان کے دل میں کام تیزی سے کرنے کی رمق نہیں جاگ رہی تھی۔ بے دلی سے منہ اٹھا کر کسٹمرز کو دیکھنا اور پھر روایتی سستی میں یوں کھو جانا جیسے کوئی آیا ہی نا ہو۔ بار بار مخاطب کرنے پر یوں لگتا تھا جیسے آپ نے ان کے اس فرائض منصبی میں دخل دیا ہے، جس کو انجام دینے کی تنخواہ ملتی ہے۔ باقی دفتری کام تو شاید زبردستی کروائے جا رہے ہیں۔ ہم نے ڈاک بھجوانے کا کہا تو ہمارے لفافے پر درج کوئٹہ کا ایڈرس دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے بھائی کوئٹہ کے حالات کی وجہ سےآپ سوچ لیں کہ ڈاک کا کچھ پتہ نہیں کب تک پہنچے۔ ہمارے استفسار پر فرمانے لگے آج کل کوئٹہ کی ڈاک اتنی ہی سستی سے جاتی ہے جتنی سستی سے ہم اس ڈیسک تک اس ڈیسک تک آئے ہیں، آگے آپ کی مرضی۔ ہم نے کہا کہ پرائیویٹ تو بنا چوں چرا لے جا رہے ہیں اور اگلے دن  پہنچا بھی رہے ہیں۔ تو فرمان آیا پھر وہیں سے کروا لیں۔ ہم پرائیویٹ ڈاک بھجوانے گئے تو وہاں بغیر کسی اعتراض کے بکنگ بھی ہو گئی، اور اگلے دن ڈاک پہنچ بھی گئی۔اب حالات کیا صرف سرکاری ادارے کے لئے خراب ہیں پرائیویٹ ادارے کے لئے نہیں؟ خیر جی اس ماہ دوبارہ کوشش کرتے ہوئے ڈاک بھجوانے کے لئے سرکار کو دوبارہ زحمت دینے کی سوچ لئے انہی حالات سے نمٹتے رجسٹرڈ پوسٹ بک کروانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اب شروع ہوا کچھوے کے کوئٹہ پہنچنے کے انتظار کا مرحلہ۔ ہمیں علم تھا پاکستان پوسٹ 4 دن تو لیتا ہی ہے۔ سو چار دن گزرنے کے بعد ‘دنوا دنوا میں گنوں، کب پہنچے کی ڈاک’، گاتے دن گزرنے لگے۔ پوسٹ آفس سے رابطہ کرتے کہ کب پہنچے گی ڈاک، اور ان کا جواب ہوتا،’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ’۔ امید کا یہ پھول گیارہویں دن جا کر اس وقت کھلا جب ہم کو ڈاک پہنچنے کی خوشخبری ملی۔ یعنی سرکار کے میزبانوں نے پورا انتظام کیا ہے، کہ آئندہ ان کو تنگ نہ کرتے ہوئے پرائیویٹ اداروں پر ہی بھروسہ کیا جائے۔ پاکستان پوسٹ کے خسارے کی وجہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ عوام ہیں، تو اس کا جواب ہے، بالکل نہیں۔ بلکہ وہ سرکاری ملازمین ہیں جن کو کسی چیک اینڈ بیلنس کا ڈر ہی نہیں ہے۔ ان کو نوکری کا پتہ ہے کہ لگ گئی ہے۔ سو تنخواہ ملتی رہے گی۔ چاہے کام کریں یا نہ کریں۔ سرکار خود بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔ کیا سرکار ذمہ داری نہیں لے سکتی، کہ آپ کی ڈاک وقت مقررہ پر ضرور بالضرور پہنچ جائے گی۔ دیر ہونے کی صورت میں تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تاکہ ملازمین کے دل میں کوئی ڈر تو موجود ہو کہ ہم کو اب خرگوش بننے کی ضرورت ہے۔
خدارا اس طرف بھی توجہ دیجئے۔ چیک اینڈ بیلنس لاگو کیجئیے۔ پاکستان کو نقصان بیرونی سے زیادہ اندرونی طور پر ان کچھووں کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔ براہ کرم خرگوش بھرتی کیجئیے۔ وگرنہ خسارہ عوام کا ہی ہو گا، جن کے ٹیکس کے پیسوں پر یہ کچھوے پل رہے ہیں، اور فائدہ پرائیویٹ خرگوش اٹھا رہے ہیں۔ عوام بیچارے تو مجبور ہیں ان پرائیویٹ اداروں کے من مانے پیسوں پر اپنی ڈاک بھجوائیں۔
شاید کے ترے دل میں اتر جائے میری بات


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International